بھارت میں جنسی تشدد اور عصمت دری ایک قومی المیہ بن چکا ہے، جہاں ہر 16 منٹ میں ایک عورت ریپ جیسے گھناؤنے جرم کا شکار ہوتی ہے۔
بھارت میں ’’ریپ کلچر‘‘معاشرتی زوال کی عکاسی کرتا ہے اور ’’ریپ کلچر‘‘نے نہ صرف خواتین کی سلامتی کو متاثر کیا ہے بلکہ پورے معاشرتی تانے بانے میں بے چینی،عدم تحفظ کی فضا پیدا کی ہے۔
بدعنوانی، حکومتی اداروں کی غفلت،انصاف کی فراہمی میں ناکامی نےبھارت میں ’’ریپ کلچر‘‘کےفروغ کی بڑی وجوہات ہیں۔
مودی کے بھارت میں ہر 16 منٹ میں ایک عورت ریپ جیسے گھناؤنے جرم کا شکار ہوتی ہے، ’’دہلی نربھایا ریپ‘‘ہوا، جین کی سڑک پر دن دہاڑے خاتون کی عصمت دری ہو یا پھر2024 کے کلکتہ کی ڈاکٹر کا ریپ اور قتل ہوا۔
بھارت میں جنسی تشدد اور عصمت دری ایک قومی المیہ بن چکا ہے ، تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے 2018 کے سروے کے مطابق خواتین کیخلاف بڑھتے تشدداورعصمت دری کےواقعات کی بناپر’’بھارت کو خواتین کیلئے دنیا کاسب سےخطرناک ملک قراردیا گیا‘‘۔
بھارتی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے بتایا کہ سال 2022 میں بھارت میں خواتین کیخلاف جرائم کے 445 , 256مقدمات رجسٹرڈ ہوئے، جن میں سے31,516 مقدمات جنسی تشدد کے تھے، بھارت میں ہرسال اوسطاً 30,000 سے زیادہ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
عصمت دری کے بیشتر متاثرین خوف،انتقام اور ناکام وغیرموثر عدالتی نظام کے سبب انصاف سے محروم رہتے ہیں ، گزشتہ سالوں میں سزاکی شرح محض 27-28 فیصد تھی، عصمت دری کےالزام میں لگ بھگ 4 میں سے 3 افراد آزاد ہیں۔