ہنستے کھیلتے ماحول میں بننے والی فلم ’گُلنار‘ پر سب نے بڑی جان ماری کی۔ میوزک ماسٹر غلام حیدر کا تھا جنھوں نے بڑی مدھر دُھنیں تیار کی تھیں اور موسیقی کا جادو بکھیرا تھا۔
’خاندان‘ اور ’شہید‘ کے بعد وہ ایک بار پھر معراج پر پہنچے تھے۔ نغمے فلم کی نمائش سے قبل ہی زبان زدِ عام ہو گئے۔
خاص طور سے یہ نغمہ بہت پسند کیا گیا، ’چاندنی راتیں تاروں سے کریں باتیں…..‘
باقی سبھی گانے بھی ہٹ ہوئے اور غلام حیدر کا نام ایک بار پھر انڈسٹری میں گونجنے لگا۔
’نور جہاں‘(ملکہ ترنم) پہلے ہی ٹاپ پر تھی، اب وہ اور اونچی اڑانیں بھرنے لگی۔ فلم سے سب کو بڑی توقعات تھیں مگر جب مارکیٹ میں اُتاری گئی تو سوائے ہٹ میوزک کے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔
کئی خوبیوں کے باوجود سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ فلم میں حقیقی ماحول اور پس منظر عنقا تھا جس نے تماش بینوں کو مایوس کیا اور تبصرہ نگاروں (ناقدین) نے بھی اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا۔
(البتہ) شوکت تھانوی کی ایکٹنگ سب کو اچھی لگی اور اُنھوں نے اداکاری کو اپنا مستقل پیشہ بنا لیا۔ کئی فلموں میں کام کیا۔
(ہندوستانی فلم انڈسٹری سے متعلق ایک کتاب سے انتخاب)