تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

مائی نیم از گوہر جان….

بیسویں صدی کے اوائل میں گرامو فون ریکارڈ تیار کرنے والی کمپنیاں‌ ایشیائی ممالک کی طرف متوجہ ہوئیں اور یہاں‌ کاروبار کی غرض سے فن کاروں‌ کی آوازیں‌ ریکارڈ کرنا شروع کیا۔

اس دور میں گرامو فون ریکارڈ کا چرچا ہندوستان میں‌ بھی ہورہا تھا اور فن کار اسے بہت اہمیت دے رہے تھے۔

برطانوی، امریکی، فرانسیسی اور جرمن کمپنیوں نے اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں‌ بھی گرامو فون کو عام کرنے کے لیے مہم کا آغاز کر دیا۔

1898 کی بات ہے جب لندن کی ایک کمپنی نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ گرامو فون ریکارڈنگ مہم شروع کی۔

اس کام کے لیے یہاں ایک ایجنٹ کا انتخاب کیا گیا جب کہ کمپنی کی جانب سے فریڈرک ولیم گیسبرگ نامی ایک ماہر کو بھی کلکتہ بھیجا گیا۔

ابتدائی چند ہفتوں کے دوران تو ریکارڈنگ کا سلسلہ چند اینگلو انڈین آوازوں تک محدود رہا اور کسی ہندوستانی آرٹسٹ کی آواز ریکارڈ نہیں کی جاسکی، لیکن اس انگریز ماہر نے مختلف مقامی شخصیات کی مدد سے موسیقی کی محافل اور تھیٹروں تک رسائی حاصل کی اور گلوکاروں کو سنا، تاہم اسے کوئی آواز نہ بھائی۔ یوں کہیے کہ وہ ریکارڈنگ کے لیے کسی فن کار کا انتخاب نہ کرسکا، مگر اس کی یہ کھوج اور بھاگ دوڑ رائیگاں نہیں گئی۔

گوہر جان کی آواز اُن دنوں ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں گونج رہی تھی۔ وہ ہر خاص و عام میں مقبول تھیں۔ اتفاق سے گرامو فون کے اس ماہر اور کمپنی کے نمائندے کو گوہر جان کو سننے کا موقع مل گیا اور اس نے ملاقات کر کے انھیں فوراً ریکارڈنگ کی پیش کش کر دی۔ اس کے لیے گلوکارہ سے مالی معاملات طے کیے گئے اور 14 نومبر 1902 کو کلکتے میں انھیں ریکارڈنگ کے لیے بلا لیا گیا۔

گوہر جان نے راگ جوگیا میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ کہتے ہیں اس ریکارڈنگ کے لیے وہ صبح 9 بجے خوب تیار ہو کر، زیورات سے لدی پھندی اپنے سازندوں کے ساتھ ہوٹل پہنچ گئیں۔ اس ریکارڈ کا دورانیہ تین منٹ تھا۔ گوہر جان اور سازندوں کے لیے وہ نہایت اہم اور یادگار دن تھا۔

اس زمانے میں کسی ریکارڈ کو محفوظ کرتے ہوئے اس پر لیبل لگانے میں آسانی کی غرض سے گائیک کو ہدایت کی جاتی کہ اختتام پر انگریزی زبان میں ایک جملہ ادا کر دے۔ گوہر جان کو بھی یہی ہدایت کی گئی اور انھوں نے بھی اپنی ریکارڈنگ کے اختتام پر چند سیکنڈز کے توقف سے کہا۔

مائی نیم از گوہر جان

یہی وہ جملہ تھا جس کی ہدایت کی جاتی تھی اور اس کی مدد سے ریکارڈ‌ میں‌ محفوظ آواز کی شناخت ممکن ہوتی تھی۔

گوہر جان ہندوستان کی پہلی گلوکارہ تھیں جنھوں نے گرامو فون پر اپنی آواز ریکارڈ کروائی تھی۔

Comments

- Advertisement -