اتوار, مئی 25, 2025
اشتہار

بھارت کے شہرت یافتہ ’’مسلمانوں‘‘ کی سب سے بڑی مجبوری

اشتہار

حیرت انگیز

بھارت کے چہرے سے بالخصوص مودی کے 13 سالہ دور میں سیکولر ملک کا نقاب اتر چکا ہے اور ایک ایسی ہندو ریاست کا ایک نیا چہرہ سامنے آیا ہے۔ جس میں کسی اقلیت بالخصوص مسلمانوں کو تو کوئی تحفظ اور حقوق حاصل نہیں۔

بھارت میں عام مسلمانوں کی حالت تو انتہائی ابتر ہے۔ کبھی انہیں گئو رکشا کے نام پر ہندو جنونیت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے تو کبھی زبردستی ہندوؤں کے مذہبی نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ گو کہ ہندوستان میں مشہور مسلمان شخصیات کی زندگی مشکل تو نہیں، لیکن اتنی آسان بھی نہیں ہے۔ وہاں کی مشہور مسلمان شخصیات کو بھی چین اور سکون سے رہنے اور حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف بولنا ضروری ہوتا ہے۔

حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران بالی ووڈ مصنف اور نغمہ نگار جاوید اختر نے اپنی روایت دہراتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور کہا کہ ’’اگر مجھے جہنم یا پاکستان جانے کا کہا جائے تو میں جہنم کا انتخاب کروں گا‘‘۔ ان کے اس غیر سنجیدہ بیان پر پاکستانیوں نے ایسا ہی منہ توڑ جواب دیا ہے جیسا کہ مودی سرکار کے نام نہاد آپریشن سندور کا جواب پاک فوج نے آپریشن بنیان مرصوص سے دیا تھا۔

جاوید اختر کا یہ بیان ہے تو بہت زہریلا اور متعصب، لیکن اگر گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو یہ ان کی مجبوری ہے، جو سب کو پتہ ہے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمان چاہے کتنے ہی با اثر اور مشہور کیوں نہ ہو جائیں، اور اپنے قول وعمل سے خود کو کتنا ہی سیکولر کیوں نہ ثابت کر دیں لیکن انہیں خود کو بھارتی ثابت کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف زہر اگلنا پڑتا ہے۔

بالی ووڈ مصنف جو کئی بار ادبی میلوں اور تقریبات میں پاکستان آ چکے ہیں اور پاکستان نے ہمیشہ ان کی بہترین مہمان نوازی کی۔ وہ جب تک پاکستان میں رہتے ہیں پاکستان کی مدح سرائی کرتے ہیں لیکن بھارت جاتے ہی گرگٹ سے بھی زیادہ تیزی رنگ بدلتے ہوئے ہمارا حقِ نمک ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔

یہ اکیلے جاوید اختر ہی نہیں بلکہ بھارت میں میں جتنے بھی نامور مسلمان ہیں، چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں، انہیں اپنی ہندوستانیت اور حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے یا تو پاکستان کے خلاف زہر اگلنا پڑتا ہے یا پھر خاموش رہنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ خاموشی بھی ہندو انتہا پسندوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ ان کی امن پسند خاموشی پر بھی سیخ پا ہو کر انہیں بھارت چھوڑنے اور پاکستان چلے جانے تک کا مشورہ دیتے ہیں۔

ایسی مسلم مخالف ذہنیت کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ حال ہی میں بھارتی فوج کی ترجمان صوفیہ قریشی پر ہندو انتہا پسندی کی زد میں آئیں۔ انہیں بی جے پی رہنما جے شاہ نے دہشتگردوں کی بہن قرار دے کر ہندوتوا ذہنیت آشکار کر دی اور دنیا کو باور کرا دیا کہ ان اور ان جیسی سوچ رکھنے والوں کی نظر میں صرف وہی ہندوستانی ہے جو ہندو ہے۔ بی جے پی رہنما اپنی فوج کی ترجمان پر شرمناک الزام لگاتے ہوئے یہ بھی بھول گئے کہ صوفیہ کی کئی نسلیں اُسی ملک کے لیے قربانیاں دے چکی ہیں۔ اُن کی پر دادی نے کالونیل برصغیر دور میں ملکہ ہند لکشمی بائی عرف جھانسی کی رانی کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف لڑی تھی، لیکن نسل در نسل قربانیوں کے باوجود وہ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے آج بھی معتبر نہیں ہیں۔

بھارتی فلم انڈسٹری میں اب تک دلیپ کمار (یوسف خان) سے بڑا اداکار پیدا نہ ہوسکا جو بلاشبہ 20 ویں صدی کے برصغیر کے سب سے بڑے اداکار قرار پائے۔ انہوں نے زندگی بھر ایک قانون پسند اور محب وطن بھارتی ہو کر زندگی گزاری، لیکن ہندو انتہا پسندوں نے دنیا بھر میں بھارت کی شناخت بننے والے اس دلیپ کمار کو بھی نہ بخشا۔

1998 میں جب پاکستانی حکومت نے دلیپ کمار کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں نشان امتیاز سے نوازا تو بھارت کے ہندو انتہا پسند طبقے میں آگ لگ گئی۔ حالانکہ دلیپ کمار یہ ایوارڈ لینے کے لیے اس وقت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم اٹل بہاری باجپائی کی اجازت سے پاکستان آئے تھے، لیکن شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے کو یہ بھی ہضم نہ ہوا اور ان کے خلاف زہر اگلا۔ اسی سے شہ پا کر ہندو انتہا پسندوں نے دلیپ کمار کے گھر کے باہر مظاہرے کیے، حد تو یہ کہ ان پر پاکستان سے جاسوسی تک کا بے سروپا الزام عائد کیا گیا۔

حالانکہ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب حکومت پاکستان نے کسی ہندوستانی کو اہم قومی اعزاز سے نوازا ہو۔ اس سے قبل بھارتی سیاستدان مرار جی ڈیسائی جو بعد ازاں ہندوستان کے وزیراعظم بنے انہیں حکومت پاکستان نے اعلیٰ سول ایوارڈ نشان پاکستان سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ 1987 میں بھارتی ایئر ہوسٹس نیرجا بھنوت کو ہائی جیکنگ کے واقعے میں بہادری کا مظاہرہ کرنے پر بعد از مرگ تمغہ پاکستان دیا گیا۔ لیکن ان پر بی جے پی یا آر ایس ایس نے غدار وطن یا پاکستان کے جاسوس ہونے کا الزام عائد نہیں کیا، کیونکہ یہ شخصیات مسلمان نہیں تھیں۔

حالیہ کشیدگی کے علاوہ ماضی میں کئی بار پاک بھارت کشیدگی کے دوران شاہ رخ خان، عامر خان، سلمان خان کی فلموں کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جاتی رہی ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ انہیں بھارت سے نکال باہر کریں۔ حالیہ جنگ بندی پر امن کی ٹویٹ کرنے پر یہ اتنے سیخ پا ہوئے کہ سلمان خان کو اپنی وہ ٹویٹ ہی ڈیلیٹ کرنی پڑی۔ بالی ووڈ کے فلمی اداکاروں کو تو ممبئی میں گھر تک خریدنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ یہی حال کھیل سے وابستہ مسلمان کھلاڑیوں کا ہے۔ اظہر الدین، عرفان پٹھان، محمد شامی، ظہیر خان، محمد سراج سمیت ایسے درجنوں نام ہیں، جو خاموش رہتے ہیں یا پھر ’’مجبوری‘‘ کے تحت پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔

ایک سابق بھارتی کرکٹر عرفان پٹھان ہیں۔ اتنا تو ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے سابق اور موجودہ کرکٹرز پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں کرتے جتنا وہ زہر اگلتے ہیں اور ان کا یہ طرز عمل ان کی مجبوری اور فرسٹریشن دونوں ظاہر کرتا ہے۔ حالانکہ یہ وہی عرفان پٹھان ہیں، کہ جب 2006 میں بھارتی ٹیم کے ہمراہ پاکستان آئے تھے تو ان ہی پاکستانیوں نے اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھایا تھا۔

2017 میں چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان سے بھارت کی شکست کے ذمہ دار تنہا محمد شامی نہیں تھے۔ ویرات کوہلی، شیکھر دھون، روہت شرما سب ناکام ہوئے تھے لیکن گھر پر حملہ صرف محمد شامی کے کیا گیا اور انہیں غدار وطن تک کے خطاب سے نواز دیا گیا۔ ہندو انتہا پسندی کے خوف نے 2023 کے ورلڈ کپ میں شامی کو گراؤنڈ پر سجدہ شکر ادا کرنے سے روک دیا۔ 90 کی دہائی میں بھارتی ٹیم جب بھی پاکستان سے ہارتی تھی تو بھارتی سب سے زیادہ لعن طعن مسلمان کپتان اظہر الدین پر کرتے تھے۔

ایک جانب ہندوتوا کی حامی ریاست بھارت ہے جہاں مسلمانوں کے لیے سانس لینا بھی اجیرن اور پاکستان یا اس سے منسلک کسی نام کو جرم بنا دیا گیا ہے۔ کہیں وہ کراچی بیکری پر حملہ آور ہوتے ہیں تو کہیں انتہا پسندی کی انتہا کرتے ہوئے قدیمی مٹھائیوں سے پاک نام ہٹا شری لگاتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان ہے، جہاں اقلیتوں کو ان کے تمام حقوق حاصل ہیں۔ بھارت کتنی ہی شر انگیزی کرے، لیکن یہاں کا کوئی مسلم شہری کسی ہندو شہری کی حب الوطنی پر شک نہیں کرتا۔ اس کو ہراساں کیا جاتا ہے اور نہ ہی پاکستان چھوڑنے کے لیے دھمکایا جاتا ہے۔ یہاں بمبئی بیکری ہو یا دہلی بریانی آج بھی ہماری ثقافت کا حصہ اور شان سمجھی جاتی ہے۔ یہ فرق ہے دونوں طرف کی ذہنیت، سوچ اور اقدار کا۔

مسلمانوں سے نفرت کرنے والے بھارت اور ہندو انتہا پسندوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس ایٹم بم کے بل بوتے پر وہ اتراتے ہیں، وہ ایک مسلمان سائنسدان ڈاکٹر عبدالکلام ہی کی کاوش تھا۔ جو ترنگا وہ لہراتے ہیں اس کے ڈیزائن کی حتمی منظوری ایک مسلم طالبہ نے دی تھی۔ تاج محل، لال قلعہ، قطب مینار سمیت سیاحوں کو راغب کرنے والے تاریخی مقامات مسلمان مغل حکمرانوں کی یادگار ہیں۔

اہم ترین

ریحان خان
ریحان خان
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں