تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

1947: بھارتی مسلمانوں‌ پر ہونے والے مظالم کو پیش کرتی دو فلمیں‌

گزشتہ سات دہائیوں کے دوران تقسیمِ ہند اور ہجرت کے موضوع پر کئی کہانیاں اور ناول لکھے گئے جنھیں‌ بعد میں فلمی پردے پر بھی پیش کیا گیا۔

یہاں ہم آپ کو اردو زبان کے دو مشہور و معروف ادیبوں کی کہانیوں‌ کے بارے میں‌ بتارہے ہیں‌ جن کی عکس بندی کی گئی اور وہ اپنے وقت کی کام یاب فلمیں‌ ثابت ہوئیں۔

مشہور ادیب عصمت چغتائی کی ایک کہانی ’گرم ہوا‘ کا موضوع تقسیمِ ہند اور اس سے جڑے واقعات تھے جسے مشہور شاعر اور کہانی کار کیفی اعظمی نے بڑے پردے کے سانچے میں ڈھالا۔

عصمت چغتائی کی یہ کہانی ایک ایسے مسلمان خاندان کے گرد گھومتی ہے جس کے چند افراد تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کر جاتے ہیں، لیکن سلیم مرزا( کہانی کا کردار) ہندوستان کو اپنا وطن مانتا ہے اور یہاں‌ سے ہجرت کرنے پر رضامند نہیں‌ ہوتا۔ اسے ایک قوم پرست مسلمان کہہ سکتے ہیں‌۔

کہانی آگے بڑھتی ہے تو سلیم مرزا پر کُھلتا ہے کہ وہ اپنے ہی وطن یعنی ہندوستان میں‌ غدار اور جاسوس تصور کیا جاتا ہے۔ اسے مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس پر آفتیں ٹوٹتی ہیں۔

یہ کہانی ان تمام ہندوستانی مسلمانوں کی اس دور کی تلخ اور بدترین زندگی کا عکس تھی جنھوں‌ نے تقسیم کے بعد بھارت میں رہنا پسند کیا اور بعد میں طرح طرح‌ الزامات کی وجہ سے ان کا جینا حرام ہوگیا۔

عصمت چغتائی کی اس کہانی کے ہدایت کار ایم۔ایس ستھیو تھے۔ یہ فلم اس وقت کے بھارتی مسلمانوں کے کرب اور ہندوستان میں ان کے بدترین حالات کی نہایت مؤثر عکاسی تھی۔

گرم ہوا کو تقسیمِ ہند کے پس منظر نہایت اہم اور زبردست کاوش سمجھا جاتا ہے جس نے بھارتی سماج کی ذہنی پسماندگی اور تضاد کو پیش کیا۔

نسیم حجازی سے کون واقف نہیں۔ اسلامی تاریخ پر مبنی ان کے ناولوں کو زبردست شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور ان پر ڈرامے بھی بنائے گئے، لیکن نسیم حجازی کے ایک مشہور ناول ’خاک اور خون‘ کو اس لیے مختلف کہا جاسکتا ہے کہ اس میں 1947 کا زمانہ دکھایا گیا ہے اور مصنف نے پنجاب کے ہندو، مسلمان اور سکھوں کی کہانی بیان کی ہے جو اکٹھے رہتے ہیں۔ تاہم متعصب اور شریر ہندو، سکھوں اور مسلمانوں میں‌ پھوٹ ڈالنے میں‌ کام یاب ہو جاتے ہیں جس کے بعد مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے اور ان کے کئی خاندان برباد ہوجاتے ہیں۔

یہ نسیم حجازی کا واحد ناول ہے، جس پر اسی نام سے فلم بنائی گئی اور کہانی یا کرداروں میں بھی کوئی تبدیلی نہیں‌ کی گئی۔

اس کہانی میں‌ دکھایا گیا متاثرہ خاندان کا ایک نوجوان کسی نہ کسی طرح پاکستان آجاتا ہے اور یوں کہانی انجام کو پہنچتی ہے۔

Comments

- Advertisement -