دانیال جب ناراض ہوتے ہیں تو منہ پھلا کر کونے میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آج کل وہ چھٹیوں میں اپنی دادی کے پاس آئے ہوئے تھے۔
برسات کا موسم شروع ہوگیا تھا۔ بادل خوب امنڈ کر آئے۔ پھر بارش ہونے لگی۔ دانیال باہر جا کر بارش میں بھیگنا چاہتے تھے۔ دادی نے منع کر دیا۔ موسم کچھ ایسا ہورہا تھا کہ کبھی سخت گرمی تو کبھی مرطوب ہوا۔ کچھ لوگوں کو کھانسی نزلہ ہورہا تھا۔ دادی نے کہا بھیگنے سے بیمار پڑگئے تو چھٹیاں غارت ہوجائیں گی۔ بس دانیال منہ پھلا کر ایک طرف کو کھڑے ہوگئے۔
دوپہر کے کھانے کا وقت تھا۔ کھانا میز پر آچکا تھا۔ دادی نے آواز لگائی۔ ”آؤ بچّے کھانا کھا لو۔ دیکھو نسیمہ آپا نے گرم گرم پھولی ہوئی روٹیاں پکائی ہیں۔“
”ایسی گول اور پھولی ہوئی ہیں جیسے دانیال بھیا کا منہ۔“ نسیمہ نے انھیں چھیڑا۔
دانیال کو بھوک لگی ہوئی تھی۔ گرم گرم پھولی پھولی روٹیوں کی بات سن کر وہ غصہ بھول گئے اور ٹیبل پر آگئے۔
”پہلے جا کر ہاتھ دھوئیے۔ دادی نے تنبیہ کی۔ کھانے سے پہلے ہاتھ خوب اچھی طرح دھو لینے چاہییں۔ دانیال بھاگ کر واش بیسن پر چلے گئے۔ صابن لگا کر ہاتھ اچھی طرح دھوئے، پھر چھوٹی تولیہ سے پونچھ کر آگئے۔ تب نسیمہ نے ان کی پلیٹ میں توے سے اتاری پھولی ہوئی روٹی لاکر ڈالی۔ دانیال کی پسند کا انڈے آلو کا سالن بھی تھا۔
”بہت گرم ہے۔“ دانیال نے پھولی ہوئی روٹی میں انگلی ماری۔ بھاپ سے انگلی میں جلن محسوس ہوئی۔ جلدی سے اسے منہ میں ڈال لیا۔ اب روٹی پچک چکی تھی۔
دادی۔ دادی۔ روٹی کیوں پھولتی ہے۔
یہ اچھا سوال پوچھا تم نے۔ دادی نے کہا۔ پہلے کھانا کھالو، پھر بتاتے ہیں۔ کھانا کھالینے کے بعد دادی نے بتایا۔
”تمہیں معلوم ہے روٹی عام طور پر گیہوں کے آٹے سے بنتی ہے۔“
”معلوم ہے دادی۔ کچن میں کنستر بھر کر گیہوں کا آٹا رکھا ہے۔“
”ہاں۔ اسٹور روم میں گیہوں بھی ہے جو گاؤں سے آیا ہے۔ آٹا ختم ہوگا تو اسے لِپوا کر آٹا بنوا لیا جائے گا۔ روٹی پکانے سے پہلے اس آٹے کو گوندھا جاتا ہے۔
دانیال نے سر ہلایا۔ ”جانتے ہیں“ دانیال اکثر کچن میں گھسے رہتے تھے۔
”گیہوں میں ایک چیز ہوتی ہے جسے گلوٹن (Gluten) کہتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا پروٹین ہوتا ہے۔ تم ابھی چوتھے اسٹینڈرڈ میں ہو۔ اگلے سال شاید تمھیں پروٹین کے بارے میں کلاس میں بتایا جائے۔ بہرحال اس پروٹین کی وجہ سے آٹے میں لچک پیدا ہوتی ہے اور وہ کھینچا جاسکتا ہے۔ تم نے نسیمہ آپا کو یا ہمیں روٹی بیلتے دیکھا ہوگا۔ لچک کی وجہ سے ہی روٹی بڑھتی ہے۔ بہت سے لوگ تو بہت بڑی بڑی روٹیاں بنا لیتے ہیں۔“
”جیسے رومالی روٹی جو ہم نے ہوٹل میں کھائی تھی۔“
”شاباش۔ ٹھیک بتایا۔“ دادی نے کہا۔
”آٹے کو لوچ دار بنانے کے علاوہ یہ پروٹین اس میں ایک جال سا بنا دیتا ہے۔ اس کے ننھے ننھے خانوں میں گیس کے بلبلے پھنس جاتے ہیں۔ روٹی جب توے پر ڈالی جاتی ہے تو گرمی سے بھاپ بنتی ہے۔ یہ بھاپ گلوٹین کے ننھے ننھے خانوں کو پھلا کر اوپر کی طرف دھکیلتی ہے اور روٹی پھول جاتی ہے۔“
دانیال نے سَر ہلایا۔ جیسے وہ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں۔ ”گرمی سے روٹی کے اندر بھاپ بنتی ہے۔ وہ آٹے میں موجود گلوٹین کے جال کو اوپر کی طرف دھکا دیتی ہے۔ اسی سے روٹی پھول جاتی ہے۔“ انھوں نے دہرایا۔ اور بولے ”ارے دادی پوریاں بھی تو پھولتی ہیں ا ور گول گپّے بھی۔“
”وہ بھی اسی اصول کے تحت پھولتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ انھیں گرم تیل سے گرمی ملتی ہے۔“ وہ تیل میں تلے جاتے ہیں۔
”رات کے کھانے میں پوری کھلائیں گی دادی؟“ دانیال نے کہا۔
”ضرور۔ بشرطے کہ تم ساتھ میں ہری سبزی بھی کھاؤ۔ ہری سبزی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اسے کھانے کو کہا جائے تو روٹی کی طرح منہ مت پھلانا۔“ دادی نے پیار سے سَر پر چپت لگاتے ہوئے کہا۔
(معروف بھارتی ادیب اور افسانہ نگار ذکیہ مشہدی کی بچّوں کے لیے لکھی گئی کہانی)