ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ماحول میں، بھارت نے ایک بار پھر موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کیساتھ اتحاد کر لیا ہے۔
اس کا مقصد اس بحران سے فائدہ اٹھا کر اپنے کھوئے ہوئے علاقائی اثر و رسوخ کو دوبارہ حاصل کرنا ہے۔ حیران کن طور پر، ہند-اسرائیلی گمراہ کن نیٹ ورکس نے اب ایک نیا محاذ کھول دیا ہے، جس کے تحت وہ جھوٹے طور پر پاکستان، چین اور روس پر ایران کی حمایت کا الزام لگا کر توجہ ہٹانے اور بیانیے کو مزید شدید کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حقائق کیا ہیں؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان، چین یا روس کی جانب سے ایران کو کسی بھی قسم کی امداد فراہم کرنے کے کوئی قابل اعتماد انٹیلی جنس شواہد موجود نہیں ہیں۔ یہ بظاہر ایک ہند-اسرائیلی اطلاعاتی آپریشن ہے جسے خاص طور پر اپنی اشتعال انگیز حکمت عملیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
یہ بیان کہ مذکورہ بالا ممالک ایران کی حمایت کر رہے ہیں، کسی بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ یہ ایک مصنوعی اتحاد کا تصور ہے، جسے صرف علاقائی جارحیت کو جواز دینے اور ایران کو "ذمہ داری کی شراکت” کے ذریعے تنہا کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے۔
جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے وہ غیر جانبدار تجزیہ نہیں، بلکہ ایک سوچی سمجھی بیانیہ سازی ہے جس کا مقصد خودمختار ریاستوں کی آزادانہ پالیسیوں کو جنگی حمایت سے جوڑنا ہے، وہ بھی کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر۔
پاکستان کا واضح مؤقف
پاکستان کا مؤقف اس حوالے سے ہمیشہ واضح اور اصولی رہا ہے۔ ہم خطے میں استحکام کے خواہاں ہیں اور کسی بھی صورت میں دوسروں کی مسلط کردہ جنگوں میں الجھنا نہیں چاہتے۔ یہ الزامات محض سیاسی مفادات پر مبنی ہیں اور حکمتِ عملی کے تحت گمراہ کن پراپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں۔
پراپیگنڈے کا تسلسل
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب بھی بھارت یا اسرائیل کو اپنے یکطرفہ اقدامات پر عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو ایسے جھوٹے پراپیگنڈے شروع کر دیے جاتے ہیں تاکہ الزام دوسروں پر ڈال کر صورتحال کو مزید پیچیدہ کیا جاسکے اور دائرہ کو وسیع کیا جا سکے۔ موجودہ بیانیہ بھی اسی طرز کا ایک حصہ ہے۔
اینٹی ویسٹ بلاک” کی بے بنیاد کہانی
ہند-اسرائیلی کوشش کہ ایک مبینہ "اینٹی ویسٹ بلاک” کا بیانیہ قائم کیا جائے، ایک مبالغہ آمیز چال ہے۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ کثیرالجہتی سفارت کاری کو بدنام کرنے کی ایک پیشگی کوشش ہے تاکہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایسے گمراہ کن پراپیگنڈے کا شکار نہ ہوں اور حقائق کی روشنی میں صورتحال کا تجزیہ کریں۔