اتوار, نومبر 3, 2024
اشتہار

انگمار برگمین:‌ عالمی سنیما کا معتبر نام

اشتہار

حیرت انگیز

عالمی سنیما کی تاریخ کے چند عالی دماغ اور باکمال ہدایت کاروں میں ایک نام انگمار برگمین کا بھی شامل ہے۔ ’کرائم اینڈ وسپرز‘، ’دی سیونتھ سیل‘ اور ’وائلڈ سٹرابری‘ جیسی شاہ کار فلمیں برگمین نے ہی سنیما کو دی ہیں۔ ان کے علاوہ کئی بہترین دستاویزی فلمیں‌ اس ہدایت کار کے فن و تخلیق میں انفرادیت کا ثبوت ہیں۔

سنیما سے پہلے انگمار برگمین نے اسٹیج اور ریڈیو کی دنیا میں بھی اپنی صلاحیتوں اور فنی مہارت کو منوایا تھا۔ ان کی فلموں کا موضوع عام حالات، ازدواجی زندگی کے مسائل اور مذہبی فکر پس منظر رہا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سنیما اور جدید دنیا سے تعلق جوڑنے والے انگمار برگمین نے ایک قدامت پسند اور شاہی دربار سے وابستہ پادری کے گھر میں‌ آنکھ کھولی تھی اور وہ ایسے ماحول کے پروردہ تھے جس میں مذہبی تعلیمات اور روایات کو مقدم رکھا جاتا تھا۔

انگمار برگمین 14 جولائی 1918 کو سویڈن کے ایک شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں۔ انگمار کے مطابق والد کے غصّے سے سبھی ڈرتے، ان کی حکم عدولی تو درکنار، ان کے کسی اصول کو توڑنا یا مزاج کے برعکس کچھ کرنے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن برگمین نے اس ماحول اور والد کی خواہشات کے برخلاف الگ ہی راستہ چنا۔ وہ اپنی خود نوشت The Magic Lantern میں لکھتے ہیں: چرچ میں اُن (والد) کی مصروفیت کے دوران گھر میں کچھ گایا اور سُنا جاسکتا تھا۔

- Advertisement -

برگمین کی نے اسی مذہبی سوچ اور مخصوص فکر کے حامل افراد، ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز، انسانوں کی محرومیوں کو بڑے پردے پر کہانیوں کی شکل میں پیش کیا۔ یہاں Winter Light کا ذکر ضروری ہے، جو 1962 میں سنیما پر پیش کی گئی۔ اس کا اسکرپٹ ہی نہیں ڈائریکشن بھی انگمار برگمین کی تھی۔ یہ دیہی علاقے کے ایک گرجا اور پادری کی کہانی ہے، جسے مذہب سے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برگمین بھی نوعمری میں‌ من مانی مذہبی تشریح پر سوال اٹھانے لگے تھے۔ 1937 میں انھوں نے اسٹاک ہوم یونیورسٹی میں آرٹ اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا اور یہاں تھیٹر اور فلم ان کا محبوب موضوع رہا جس نے ان کے ذہن کو مزید سوچنے، کھوجنے اور سوالات قائم کرنے پر اکسایا۔ یہیں انگمار برگمین اسٹیج ڈراموں کے اسکرپٹ لکھنے لگے۔ 1942 انھیں تھیٹر اور بعد ازاں اسسٹنٹ فلم ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل گیا۔ اگلے برس، یعنی 1943 میں ان کی زندگی میں‌ ایلس میری فشر رفیقِ حیات بن کر شامل ہوئی مگر 1946 میں ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ برگمین نے پانچ شادیاں کیں جن میں‌ سے چار ناکام رہیں۔

1944 میں برگمین کا پہلا اسکرین پلے Torment سامنے آیا۔ یہ انسان کے جنون اور ایک قتل کی کہانی تھی، جسے بعد میں امریکا اور لندن میں بھی مختلف ٹائٹل کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ انھوں‌ نے درجنوں فلموں کے اسکرپٹ تحریر کرنے کے ساتھ ہدایت کاری بھی کی۔ 1955 میں Smiles of a Summer Night سامنے آئے جس کے وہ ہدایت کار تھے۔ یہ کامیڈی فلم کانز کے میلے تک پہنچی تھی۔ اس کے فوراً بعد سیونتھ سیل نے برگمین کو خصوصی انعام دلوایا اور ایک مرتبہ پھر وہ کانز کے میلے تک پہنچے۔

1960 کی ابتدا میں برگمین نے اپنے اسکرپٹس میں مذہب کو موضوع بنانا شروع کردیا۔ اس ضمن میں تین فلموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جن کے ہدایت کار برگمین ہی تھے۔ یہ فلمیں خدا، انسان کے کسی نادیدہ ہستی پر یقین اور اس حوالے سے شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔

1976 میں انگمار برگمین نے ایک بدسلوکی پر بددل ہوکر سوئیڈن چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ انھیں ٹیکس فراڈ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا جو بعد میں‌ جھوٹا ثابت ہوا اور متعلقہ اداروں نے اسے غلطی قرار دے کر انگمار سے معذرت کی۔ لیکن انھوں‌ نے اپنا فلم اسٹوڈیو بند کیا اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ وہ امریکا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 1982 میں وہ فلم Fanny and Alexander کی ڈائریکشن کے لیے سوئیڈن آئے اور پھر آنا جانا لگا ہی رہا۔ اسے بہترین غیرملکی فلم کے زمرے میں آسکر سے نوازا گیا تھا۔

عالمی سنیما کا یہ بڑا نام 30 جولائی 2007ء کو منوں مٹی تلے جا سویا۔ انھیں انفرادی طور پر نو مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا۔ تین مرتبہ انگمار برگمین کی فلموں کو اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1970ء وہ آسکر ایوارڈ سے سرفراز کیے گئے جب کہ 1997ء میں کانز کے فلمی میلے میں برگمین کو ’پام آف دا پامز‘ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن آرٹس، بافٹا ایوارڈ اور گولڈن گلوب ایوارڈ بھی انگمار برگمین کے حصّے میں‌ آئے اور وہ سنیما کی تاریخ کی اہم ترین شخصیت شمار کیے گئے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں