وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے پرتشدد احتجاج میں تربیت یافتہ شر پسند اور غیر قانونی افغان شہری شامل تھے۔
وزارت داخلہ نے 24 سے 27 نومبر کے دوران پی ٹی آئی احتجاج کے حوالے سے منفی پروپیگنڈے کا جواب دیا ہے۔ اس حوالے سے وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاک فوج کا پُر تشدد ہجوم سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا اور نہ ہی وہ تشددکی روک تھام کیلیے تعینات تھی۔ فوج کو آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت اسلام آباد میں تعینات کیا گیا تھا اور اس کی تعیناتی کا مقصد اہم تنصیبات، غیر ملکی سفارت کاروں کی حفاظت اور دورے پر آئے اہم وفود کیلیے محفوظ ماحول یقینی بنانا تھا۔
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ 21 نومبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو امن وامان ہر قیمت پر قائم رکھنے اور اس کے لیے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی قیادت سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ حکومت نے بیلا روس کے صدر اور چینی وفد کے دورے کے پیش نظر پی ٹی آئی کو متعدد بار احتجاج موخر کرنے کا کہا اور اس کے احتجاج جاری رکھنے کی ضد پر انہیں سنگجانی مقام کی تجویز دی گئی۔
تاہم غیر معمولی مراعات بشمول بانی سے ملاقاتوں کے باوجود پی ٹی آئی نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی اور سنگجانی کے بجائے اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہوئے۔ پُر تشدد مظاہرین نے پشاور سے ریڈ زون تک مارچ کے دوران ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔
وزارت داخلہ کے مطابق مظاہرین نے اسلحہ، اسٹیل سلنگ شاٹس، اسٹین گرنیڈ، آنسو گیس شیل، کیل جڑی لاٹھیوں کا استعمال کیا۔ پُر تشدد احتجاج میں خیبر پختونخوا حکومت کے وسائل کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ صوبائی سرکاری مشینری سے سڑک پر نصب رکاوٹیں ہٹا کر شرپسند جتھوں کیلیے راستہ بنایا۔ وزیر اعلیٰ کے پی نے صوبائی اسمبلی کو اداروں کیخلاف اشتعال انگیز بیانات کیلیے استعمال کیا۔
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ پولیس، رینجرز نے اس پُرتشدد ہجوم کو منتشر کرنے کیلیے اسلحے کا استعمال نہیں کیا۔ اس کے برعکس انہیں منتشر کرنے کے دوران مظاہرین کے مسلح شر پسندوں نے اندھا دھند فائرنگ کی۔ خود ساختہ پُر تشدد حالات میں پی ٹی آئی قیادت نے صورتحال سنبھالنے کے بجائے راہ فرار اختیار کی۔
وزارت داخلہ کے مطابق 1500 شرپسند براہ راست مفرور اشتہاری مراد سعید کے ماتحت سرگرم تھے، جو خود بھی ان کے ہمراہ تھا۔ اس گروہ نے عسکریت پسندانہ حکمت عملی سے قانون نافذ کرنیوالے اہلکاروں پر حملہ کیا۔ اسلام آباد چیک پوسٹ پر ڈیوٹی پر تعینات تین رینجرز اہلکاروں کو گاڑی چڑھا کر شہید کیا گیا۔ پرتشدد مظاہرین نے ایک پولیس اہلکار کو بھی شہید کیا جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 232 اہلکار ان شر پسندوں کے ہاتھوں زخمی ہوئے۔ جیل وینز کو آگ لگانے کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی 11 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ مظاہروں کے دوران معیشت کو بلواسطہ 192 ارب یومیہ کا نقصان ہوا۔
وزارت داخلہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرتشدد مظاہرین نےسیکیورٹی فورسز پرحملہ کیا اور پولیس کی متعدد گاڑیوں کو آگ لگائی، لیکن اس کے باوجود سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے پُرتشدد مظاہرین کیساتھ انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا۔ پولیس اور رینجرز نے پرتشدد ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے اسلحے کا استعمال نہیں کیا۔
مظاہرین کے فرار کے بعد وفاقی وزرائے داخلہ، اطلاعات نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا اور میڈیا سے بات چیت کی۔ اس موقع پر پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر ایک منظم پروپیگنڈا شروع کر دیا اور اب مبینہ ہلاکتوں کی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ڈالنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ من گھڑت سوشل میڈیا مہم کے دوران پرانے، اے آئی سے تیار جھوٹے کلپس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے جانیں خطرے میں ڈال کر عوام کی حفاظت کی۔ وزرا، حکومتی اہلکار، پولیس آفیشلز، کمشنراسلام آباد نے ثبوت کیساتھ صورتحال کی وضاحت کی، وفاقی دارالحکومت کے بڑے اسپتالوں کی انتظامیہ نے بھی ہلاکتوں کی رپورٹ کی تردید کی لیکن بدقسمتی سے غیر ملکی میڈیا کے بعض عناصر بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے۔
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ پکڑے گئے شر پسندوں میں 3 درجن سے زائد غیر ملکی اجرتی شامل ہیں۔ پرتشدد مظاہرین سے 18 خودکار ہتھیاروں سمیت 39 مہلک ہتھیار بھی برآمد ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا مہم پاکستان میں انتشار، بدامنی، تفرقہ بازی کو فروغ دے رہی ہے تاہم اندرون اور بیرون ملک ایسے عناصر کا متعلقہ قوانین کے تحت احتساب کیا جائے گا۔
پاکستان بشمول خیبرپختونخوا کے قابل فخرعوام اس قسم کی پرتشدد سیاست، بے بنیاد الزامات اور بد نیتی پر مبنی پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہیں۔ پوری پاکستانی قوم ملک میں امن واستحکام کی خواہش کے ساتھ یکجا کھڑی ہے۔