تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

غلامی کے خاتمے کا عالمی دن: خاتمہ تو نہ ہوسکا پر شکل بدل گئی

غلامی کا لفظ سنتے ہی ذہن میں کسی پرانے دور کا تصور ابھر آتا ہے جب انسانوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا، قید کر کے رکھا جاتا تھا اور ان سے جبری مشقت کروائی جاتی تھی، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آج اکیسویں صدی میں بھی ہماری دنیا میں غلامی اپنی تمام تر بدنمائی کے ساتھ موجود ہے۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 4 کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کی غلامی میں زندگی بسر کرہے ہیں۔ ہر 1 ہزار میں سے 5 افراد جدید غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

دراصل عالمی ادارے دنیا بھر میں جاری انسانی اسمگلنگ، جبری مزدوری، قرض چکانے کے لیے خدمت، جبری خدمت کے عوض شادی اورکاروباری جنسی استحصال کو جدید غلامی قرار دیتے ہیں۔

ماضی میں دنیا بھر میں غلامی ایک ادارہ اور کاروبار تھا۔ یورپی اقوام غلاموں کی تجارت میں سب سے بدنام رہیں۔ افریقہ سے لاکھوں لوگوں کو اغوا کر کے غلام بنایا جاتا اور دنیا بھر میں فروخت کیا جاتا تھا۔

برطانوی سلطنت میں سنہ 1833 میں غلامی کا خاتمہ ہوگیا تاہم جدید غلامی ایکٹ جس میں انسانی اسمگلنگ اور جبری مشقت کو غیر قانونی قرار دیا گیا، صرف چند برس قبل سنہ 2015 میں منظور کیا گیا۔

[bs-quote quote=”قدیم روم میں موسم سرما کے ایک فیسٹیول میں غلام اور مالکان کچھ وقت کے لیے اپنے کردار بدل لیا کرتے تھے اور غلام مالکان، جبکہ مالکان غلام بن جایا کرتے تھے۔” style=”style-8″ align=”left”][/bs-quote]

جس وقت برطانیہ میں غلامی کا خاتمہ کیا گیا اس وقت معاوضے کے طور پر ایک بڑی رقم مختص کی گئی تاہم یہ رقم غلاموں کے بجائے ان کے 46 ہزار سابقہ مالکان کو دی گئی جن کے کاروبار زندگی غلاموں کے بغیر معطل ہوگئے تھے۔ 8 لاکھ غلام آزاد ہو کر بھی خالی ہاتھ رہ گئے۔

اسی طرح امریکا میں سولہویں صدر ابراہام لنکن نے غلامی کو ختم کرنے کی ٹھانی اور اس کے لیے طویل خانہ جنگی لڑی، اس جنگ کو امریکا کی خونریز ترین جنگ کہا جاتا ہے۔

بالآخر لنکن اپنے عظیم مقصد میں کامیاب رہا اور اور 1865 میں امریکا میں غلامی غیر قانونی قرار پائی۔

ابراہام لنکن

اس کے علاوہ بھی دنیا کے مختلف حصوں میں غلامی کے خلاف طویل جدوجہد کی گئی اور عصری شعور پھیلتا گیا، تاہم یہ کہنا غلط ہوگا کہ غلامی ختم ہوگئی، البتہ اس نے اپنی شکل بدل لی۔

واک فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ ہر 3 غلام افراد میں ایک بچہ شامل ہے جو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جبکہ غلاموں کی نصف تعداد خواتین اور نوجوان لڑکیوں پر مشتمل ہے۔

غلام بنانے والے ممالک

واک فری فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ دنیا میں 5 ممالک میں جدید غلامی کی شرح سب سے زیادہ ہے جس میں سرفہرست بھارت ہے۔

دوسرے نمبر پر چین، چوتھے پر بنگلہ دیش، اور پانچویں پر ازبکستان موجود ہے۔

بدقسمتی سے اس فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر موجود ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موجود غلاموں کی آبادی کا 58 فیصد حصہ انہی 5 ممالک میں رہائش پذیر ہے اور غیر انسانی حالات کا شکار ہے۔

فہرست کے مطابق بھارت میں ایک کروڑ سے زائد، چین میں 33 لاکھ، پاکستان میں 21 لاکھ، بنگلہ دیش میں 15 لاکھ جبکہ ازبکستان میں 12 لاکھ افراد غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

Comments

- Advertisement -