تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے مخلف شہروں میں مظاہروں اور ہنگامہ آرائی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
حکومت نے عمران خان کی گرفتاری کے بعد کسی بھی قسم کے عوامی ردعمل اور افواہوں کی روک تھام کیلئے انٹرنیٹ کو کہیں بند تو کہیں اس کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا، جس کی بہت بھاری قیمت عوام اور خصوصاً آن لائن کام کرنے والے افراد کو اٹھانا پڑی۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں انٹرنیٹ سروس معطل رہی جبکہ کراچی، حیدرآباد اور سکھر سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں انٹرنیٹ سروس کی رفتار انتہائی سست رہی۔
لاکھوں شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا
انٹرنیٹ کی بندش سے لاکھوں شہری متاثر ہوئے جو روزگار سے لے کر اپنے یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی اور گھریلو سامان خریدنے تک ہر چیز کے لیے انٹرنیٹ پر انحصار کرتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سروسز وفاقی وزارتِ داخلہ کے احکامات پر معطل کی گئیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال پیش ہونے کے بعد انٹرنیٹ تک رسائی بند یا محدود کی گئی ہو لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر بڑھتے انحصار کی وجہ سے انٹرنیٹ میں رکاوٹ نہ صرف لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی بھاری نقصان کا باعث ہے۔
حکومتی اقدام سے کس کا کتنا نقصان ہوا ؟
انٹرنیٹ سینسر شپ اور حقوق پر کام کرنے والے ادارے ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے ابتدا کے صرف تین دنوں میں 52ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں ڈیجیٹل رائٹس ایکٹویسٹ اسامہ خلجی نے بتایا کہ آئی ٹی سیکٹر وہ واحد سیکٹر ہے جو ملک میں بھاری مالیت کی فارن کرنسی لارہا ہے، پاکستان کے فری لانسر دنیا بھر میں مانے جاتے ہیں لیکن وہ بھی اپنا کام نہیں کر پارہے۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کی بندش سے آن لائن کاروبار کرنے والے شدید متاثر ہیں جن میں فوڈ پانڈا، آن لائن ٹیکسی سروس کریم، ان ڈرائیو اور بائیکیا سمیت گھر بیٹھے آن لائن کام کرنے والے مرد اور خواتین شدید پریشان ہیں جو روز کی آمدنی حاصل نہ ہونے کے باعث ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
ڈیجیٹل کانٹنٹ کریئٹر علی گل پیر نے کہا کہ ہمارا رابطہ دنیا بھر سے منقطع ہوچکا ہے، ہم کوئی ویڈیو اپلوڈ نہیں کرسکتے، ہمارے حکمران معاشرے کو تقسیم کررہے ہیں اس سے ہمارے بنیادی حقوق بھی شدید متاثر ہورہے ہیں۔
انٹرنیٹ کی بندش سے متاثر ہونے والے افراد کا کہنا ہے کہ ایک طرف ملک میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور دوسری طرف حکومت نے ہمارا روزگار بھی بند کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرکار ہمیں روزگار تو دے نہیں سکتی، الٹا ہمارے پر کاٹ رہی ہے، اگر حکومت نے جلد انٹرنیٹ بحال نہیں کیا تو ہم بھی سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
انٹرنیٹ کی بندش کے بعد وی پی این کا استعمال
انٹر نیٹ کی بندش کے دوران وی پی این کی مانگ میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ دنیا بھر میں وی پی این کے استعمال پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ ٹاپ ٹین وی پی این کی رپورٹ مطابق 10 مئی تک پاکستان میں وی پی این کی مانگ میں 1329 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
انٹرنیٹ کی بندش کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز غیر فعال ہوئے تو بیشتر پاکستانیوں نے اس کا حل وی پی این کے ذریعے نکالا جس کے بعد ٹوئٹر پر میمز کی بھرمار ہوگئی۔
اس دوران ملک بھر میں انٹرنیٹ بند کرنے والے خود وی پی این ڈاؤن لوڈ کرکے ٹوئٹر پیغامات جاری کرتے رہے، جن میں سب سے نمایاں شخصیات صدر پاکستان عارف علوی، وزیراعظم میاں شہباز شریف، نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور تو اور اسلام آباد پولیس بھی وی پی این کے ذریعے ٹوئٹس کرتی رہی۔
بندش کے خاتمے کیلئے عدالت کا اہم اقدام
ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس کی بندش کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست پر سماعت ہوئی، وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے شہری براہ راست متاثر ہورہے ہیں، واٹس ایپ اور انٹرنیٹ میں رکاوٹ سے معمولات زندگی متاثر ہیں۔ حکومت کو فوری طور پر انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کا حکم دیا جائے۔
جس کے بعد سندھ ہائیکورٹ نے پی ٹی اے، وفاقی حکومت اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے 19 مئی کو جواب طلب کرلیا۔