کیمبرج : انسانی جسم اربوں کھربوں مائیکرو اجسام کا گھر ہے اور ایک تخمینے کے مطابق ہمارے اپنے خلیے ان کے مقابلے میں اتنے کم ہیں کہ ہمارا انسانی جسم ان کا صرف دس فی صد ہے۔
تحقیق کے مطابق بعض دوائیں آنتوں کے بیکٹیریا میں جمع ہوکر علاج کو مشکل بنارہی ہیں، ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تحقیق کا ایک نیا باب ہے۔
تحقیق میں ایک اہم انکشاف ہوا ہے کہ دمہ، ڈپریشن اورذیابیطس کی عام ادویات اگرچہ اپنا اثر تو کرتی ہیں لیکن طویل مدتی اثر میں یہ آنتوں کے بیکٹریا (جرثوموں) میں جمع ہوتی رہتی ہیں اور آگے چل کر کئی ادویات کے اثر کو کم کرسکتی ہیں یا کررہی ہیں کیونکہ ادویات جمع ہونے سے بیکٹیریا غیرمعمولی طور پر تبدیل ہورہے ہیں۔
اس معلومات سے ہم مختلف افراد پر دوا کے مختلف اثرات سمجھ سکتے ہیں اور ان کے منفی اثرات بھی سمجھ سکتے ہیں۔
ہفت روزہ سائنسی جریدے "نیچر” میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بعض بیکٹیریا کیمیائی طور پر بعض ادویہ کو بدل سکتے ہیں جسے بایو ٹرانسفارمیشن کا عمل کہتے ہیں۔
جامعہ کیمرج اور یورپی مالیکیولر بائیلوجی تجربہ گاہ ( ای ایم بی ایل)، جرمنی کی کھوج بتاتی ہے کہ کئی عام ادویہ دھیرے دھیرے سے بیکٹیریا میں جاتی رہتی ہیں اور نہ صرف انہیں اندر سے بدلتی ہیں بلکہ ان کے افعال بھی بدل دیتی ہیں۔
اب خیال ہے کہ بیکٹیریا کے بدلنے سے براہِ راست نئی دواؤں پر اثر پڑسکتا ہےاور بالراست بھی بیکٹیریا کے افعال بدل سکتے ہیں جس سے دوا کے مضر اثرات بڑھ سکتے ہیں۔
ہمارے معدے، آنت اور نظامِ ہاضمہ میں سینکڑوں، ہزاروں اقسام کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جو نہ صرف صحت بلکہ امراض میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس پورے مجموعے کو گٹ مائیکروبایوم کہا جاتا ہے۔
لوگوں میں اس کی ترتیب مختلف ہوتی ہے اور اب یہ حال ہے کہ ہم تندرست بیکٹریا کے گچھوں کی شناخت بھی کرچکے ہیں۔ ان کے بگڑنے سے موٹاپا، امنیاتی نظام اور دماغی امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔
سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں 25 عام بیکٹیریا شناخت کئے اور انہیں کھائی جانے والی 15 عام ادویات کا سامناکرایا گیا۔ اس طرح کل 375 ادویہ اور بیکٹیریا کے ٹیسٹ کئے گئے۔ تحقیق میں 70 ملاپ ایسے تھے جن میں 29 کو اس سے قبل نہیں دیکھا گیا تھا۔
اس طرح بیکٹیریا اور ادویہ کے نئے 29 تعاملات میں سے 17 میں دوا بدلےکسی تبدیلی کے بغیر جمع ہونے لگیں۔ پھر ڈپریشن کی ایک دوا ڈیولوکزیٹائن نے تو بیکٹیریا کی کالونی ہی بدل دی اور ان کا توازن شدید بگڑ گیا، پھر ایک کیڑے پر ان کی آزمائش کی گئی اور اس کے بعد کیڑوں کا برتاؤ بھی بدل گیا۔