منگل, مئی 6, 2025
اشتہار

اپنا اپنا ذوق

اشتہار

حیرت انگیز

کھیر پر ہمیں یاد آیا کہ ایک مرتبہ مولانا مودودی نے کچھ حلوے کی بات کی تھی۔ حلوے کی کیا بات ہے۔ اس کے نام سے منہ میں پانی بھر آتا ہے، مگر مولانا مودودی کو شکایت یہ تھی کہ سوشل ازم کڑوا حلوہ ہے۔

اصل میں ہر آدمی کا اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے۔ مولویوں کو حلوے سے نسبت خاص چلی آتی ہے اور بھٹو صاحب کو کباب زیادہ مرغوب ہونے چاہئیں، مگر جب جمہوریت چپلی کباب نہیں ہے، سوشل ازم کڑوا حلوہ ہے، تو پھر بھوکے کیا کریں گے۔ جس کسی نے جمہوریت کو چپلی کباب سمجھا تھا، اس نے کیا غلط سمجھا۔ بھوکے سے کسی نے پوچھا کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں۔ اس نے جواب دیا ”چار روٹیاں“ جمہوریت کا جیسا سہانا نقشہ لیڈروں نے کھینچا تھا اس سے نادانوں نے یہی سمجھا کہ یہ کوئی کھانے کی چیز ہے۔ اب پتا چلا کہ جمہوریت اور آئین تو کھانے کی چیزیں نہیں ہیں۔ جمہوریت اور آئین کا غم کھایا جا سکتا ہے۔ جمہوریت اور آئین کو نہیں کھایا جا سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایوب خان دونوں کو کھا گئے اور ڈکار نہیں لی۔
اس پر ایک بھوکے نے جل کر پوچھا کہ پھر کیا جمہوریت اور آئین سونگھنے کی چیز ہیں۔ اس پر ہمیں نظیر اکبر آبادی کی نظم یاد آگئی جس میں کہنے والا کہتا ہے کہ

ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو سب نظر آتی ہیں روٹیاں

بہرحال اس وقت تو جمہوریت کو سب ہی چاہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسلام پسند بھی اور سوشلسٹ بھی، لیکن مولانا مودودی اور بھٹو صاحب والی بات سے ہم نے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ کون جمہوریت کو کس طرح چاہتا ہے۔ ایک کہانی، جس میں بادشاہ نے اپنی بیٹیوں سے سوال کیا کہ تم مجھے کیسا چاہتی ہو۔ کسی نے کہا کہ میں جہاں پناہ کو ایسا چاہتی جیسا حلوے کو چاہتی ہوں۔ حلوے سے اشارہ لے کر مختلف بیٹیاں میٹھی چیزوں کے نام گنواتی چلی گئیں، مگر ایک بیٹی یہ بولی کہ میں آپ کو نمک جتنا چاہتی ہوں، جس کے بغیر ہر پکوان ادھورا ہے۔

(انتظار حسین کی تصنیف ’قطرے میں دریا‘ سے ایک اقتباس)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں