بدھ, دسمبر 18, 2024
اشتہار

آئی پی پیز : عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والے 40 خاندان کونسے ہیں؟

اشتہار

حیرت انگیز

سابق نگراں وزیر تجارت گوہر اعجاز نے بجلی کے نام پر ملک کے 40 خاندانوں کی جانب سے کی جانے والی لوٹ مار کا انکشاف کرکے تہلکہ مچا دیا۔

یہ 40 خاندان کون سے ہیں؟ اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام خبر میں میزبان مہر بخاری نے تفصیلات بیان کیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ 40 خاندان آئی پی پیز کی مد میں پاکستانی عوام کی جیبوں سے سالانہ اربوں روپے نکال لیتے ہیں، یہ ہی نہیں ان سارے معاملات میں حکومتیں بھی پوری طرح ملوث رہی ہیں۔

- Advertisement -

یہ آئی پی پیز بجلی پیدا نہ بھی کریں تو انہیں پھر بھی اربوں روپے ادا کیے جاتے ہیں، کئی سو کھرب روپے کا گردشی قرضہ اس کے علاوہ ہے، اس قرضے کو ختم کرنے یا منجمد کرنے کیلئے ریاست بجلی کی بنیادی ٹیرف میں مزید اضافہ کردیتی ہے۔

اس سلسلے میں سابق نگراں وزیر تجارت گوہر اعجاز آئی پی پیز کو کی جانے والی کیپسٹی پیمنٹ کیخلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کرچکے ہیں۔

گزشتہ روز تاجر برادری کی تنظیم ایف پی سی سی آئی اور اپٹما نے حکومت سے آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی اور فرانزک آڈٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ 40 خاندانوں کو بچانا چاہتی ہے یا 240 ملین پاکستانی عوام کو۔

آئی پی پیز کب سے بننا شروع ہوئیں؟

مہر بخاری نے بتایا کہ آئی پی پیز کی کہانی کا آغاز سال1980 کی دہائی کے اختتام پر اس وقت ہوتا ہے جب حبکو پاور کے نام سے پہلی آئی پی پی کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس کے بعد سال1994 میں پہلی آئی پی پی پالیسی کے تحت پاور پلانٹس لگانے کے معاہدے کیے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت 28 روپے فی یونٹ میں سے 18 روپے کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں دیئے جاتے تھے، یعنی پاور پلانٹ بجلی پیدا کرے یا نہ کرے اسے 18 روپے فی یونٹ پیداواری صلاحیت کے مطابق ادا کیے جائیں گے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق رواں سال جنوری سے مارچ تک کے عرصے میں ہر ماہ 150 ارب روپے کپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے، آن آئی پی پیز کو 3 ماہ میں مجموعی طور پر 450 ارب روپے ملے لیکن چار پاور پلانٹس ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک یونٹ بھی بجلی پیدا نہیں کی انہیں بھی ایک ہزار کروڑ روپے ادا کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق ان تمام پاور پلانٹس میں سے 52 فیصد حکومت اور 28 فیصد نجی شعبے کی ملکیت ہیں اور اس وقت تین پلانٹس بالکل بند پڑے ہیں۔ جس میں حبکو، حبیب اللہ کوسٹل پاور کمپنی اور تیسرے نمبر پر کیپکو پاورپلانٹ ہے۔

مرضی کی پالیسیاں منظور کروانے والے طاقتور خاندان 

مہر بخاری کا کہنا تھا کہ دیگر سیکٹرز کی طرح آئی پی پی سیکٹر میں بھی 40 خاندانوں کے نام نمایاں ہیں جو سامنے آتے ہیں یہ خاندان اتنے طاقتور ہیں کہ حکومتوں سے اپنی مرضی کی پالیسیاں منظور کرواتے ہیں۔

تین سال قبل 2020 میں اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اب ملک میں مہنگی بجلی نہیں خریدنی پڑے گی بلکہ وزیراعظم نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے قوم کو مبارکباد بھی دی تھی۔ بعد ازاں نو رکنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں حکومت کو اپنی سفارشات پیش کیں لیکن پھر بھی کچھ نہ ہوا۔

288صفحات پر مشتمل مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ میاں منشا گروپ کے چار پاور پلانٹس نے 11 ارب روپے سے زائد منافع کمایا، اس وقت کی حکومت سے وزیر ندیم بابر کے صبا پاور پلانٹس نے ایک ارب روپے سے زائد منافع اور تین ارب روپے ڈیویڈنٹس کی صورت میں وصول کیے۔

اس کے علاوہ رزاق داؤد جو اس وقت کے حکومتی مشیر تھے جنہوں نے 9 ارب روپے کی لاگت سے تعمیر کیے گئے روش پاور پلانٹ سے 30 ارب روپے کمائے جبکہ ان کے ایک اور پاور پلانٹ نے ساڑھے چھ ارب روپے کمائے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ صبا پاور پراجیکٹ اور اوریئنٹ پاور پراجیکٹ نے تقریباً دس ارب روپے سے زائد منافع کمایا، ان دونوں پلانٹ کے مالک سابق وزیر ندیم بابر ہیں۔ اسی طرح جہانگیر ترین کے جے ڈبلیو ڈی گروپ کے دو پاور پلانٹس نے چار ارب روپے کا منافع کمایا۔

بجائے اس کے کہ ان آئی پی پیز کیخلاف مزید کارروائی ہوتی لیکن آئی پی پیز ساتھ نیا معاہدہ کرکے سے ایڈجسٹ کیا گیا، اب جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس سے معلوم ہوا ہے کہ معاہدے کے تحت جن کو فائدہ پہنچایا گیا ان میں پی ٹی آئی حکومت کے مشیر رزاق داؤد کا روش پاور پلانٹ بھی شامل ہے جس کی پیداوار صرف چار فیصد ہے۔

ڈاکٹر گوہر اعجاز کے بقول اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے روش پاور کے 160 کروڑ کے ڈیمجز معاف کیے بلکہ ان معاہدوں کو رینیو کرنے کا کریڈٹ بھی لیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق چنیوٹ پاور لمیٹڈ کے مالک موجودہ وزیراعظم کے صاحبزادے سلیمان شہباز بھی ہیں ان کے پاور پلانٹ کو تین ماہ میں 63کروڑ روپے سے زائد کیپسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ نندی پور پاور پلانٹ کو 15 ارب روپے ادائیگی کی گئی ہے، دیگر پاور پلانٹس کی بات کی جائے تو ان میں حب پاور لانٹ اینگرو اور حبیب اللہ کی ملکیت میں ہیں، پاک جنریشن پاور پراجیکٹ، نشاط پاور اور دیگر کے مالک میاں منشا ہیں۔

گل احمد انرجی کے مالک گل احمد گروپ ہے، ڈیوس انرگین پرائیویٹ سید عابد امام اور سیدہ کلثوم امام کی ملکیت ہے، سید عابد امام سید فخر امام کے صاحبزادے ہیں۔ اسی طرح سیف پاور پلانٹ سیف اللہ گروپ کی ملکیت ہے۔

لکی پاور کمپنی کے مالک محمد علی ٹبہ ہیں۔ جے ڈی ڈبلیو یونٹ ٹو اینڈ تھری کے مالک جہانگیر خان ترین ہیں، اب اگر 101پاور پلانٹس کو دیکھا جائے تو ان میں تین پلانٹ صفر کی کارکردگی پر چل رہے ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں