آئی پی پیز کے خلاف ملک گیر مہم کے بعد وزارت توانائی میں ایمرجنسی پلان پر کام کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ وزارت توانائی کو سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، اس کے علاوہ اگلے مرحلے میں سرکاری حکام و اہلکاروں سے مفت پیٹرول کی سہولت بھی واپس لینے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس وقت آئی پی پیز اور مہنگی بجلی کے خلاف ملک میں جگہ جگہ مظاہرے ہورہے ہیں، جماعت اسلامی نے اسلام آباد میں 26 جولائی سے دھرنا دیا ہوا ہے، پارٹی کا کہنا ہے کہ حکومت جب تک عوام کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات نہیں کرتی نہیں جائیں گے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سابق وزیر تجارت گوہر اعجاز نے حکومت کوآئی پی پیز کی قیمتیں کم کرنے کا فارمولا بھی بتایا ہے اور کہا ہے کہ حکومت آئی پی پیز سے معاہدوں کا فرانزک آڈٹ کرائے، پیسے ہم دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز میں 52 فیصد حکومت، 28 فیصد نجی سیکٹر کا حصہ ہے، حکومت اپنی 52 فیصد سے ہی کام شروع کرے صرف بجلی بنانے پرپیسے دے، 24روپے کا جو یونٹ ہے وہ 8روپے کا ہونا چاہیے تھا۔
خیال رہے کہ جولائی میں ہی آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق توانائی کے شعبے میں پیش رفت کرتے ہوئے سینٹرل پاور پرچیزنگ اتھارٹی نے آئی پی پیز کو 142 ارب روپے تقسیم کیے ہیں۔
گزشتہ مالی سال کے 11 ماہ کے دوران گردشی قرضوں کے حجم میں 394 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے، جب کہ توانائی شعبے کا گردشی قرضہ 2 کھرب 646 ارب روپے ہو گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی پی پیز میں حبکو، ذیلی ادارے، کیپکو، این پی ایل، ایل پی ایل اور دیگر رجسٹرڈ ادارے شامل ہیں۔