ہندوستان پر لگ بھگ آٹھ صدیوں تک حکم رانی کرنے والے مسلمانوں نے بعد میں ہندوؤں کے ساتھ ہی انگریزوں کا راج دیکھا اور پھر دونوں مذاہب کے پیروکاروں نے دوسری اقلیتوں کے ساتھ مل کر انگریزوں کو اپنے ملک سے نکالنے کے لیے جدوجہد شروع کی، مگر اس عرصہ میں مسلمانوں پر یہ واضح ہوگیا تھا کہ ہندو قیادت کی نیّت میں کھوٹ ہے اور وہ ایک ایسا وطن چاہتے ہیں جس میں مسلمان اور دوسری اقلیتوں کو اپنا محکوم بنا کر رکھیں۔
علّامہ اقبال اور اس دور کے دوسرے مسلمان اکابرین اس بات کا ادراک کرتے ہوئے مسلمانوں کے قومی وجود کو سنوارنے کے لیے آگے بڑھے۔ قدرت کی جانب سے برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی اور فکری راہ نمائی کے لیے انھیں قائد اعظم کی قیادت نصیب ہوئی۔ ادھر علامہ اقبال نے اپنے کلام کے ذریعے مسلمانوں میں بیداری پیدا کی اور کئی اسباب کے تحت مایوس اور خود کو کمتر محسوس کرنے والے نوجوانوں کو ان کا شان دار ماضی یاد دلاتے ہوئے ان میں احساسِ تفاخر ابھارا اور اعتماد پیدا کیا۔ اسی کے ساتھ ہندوستان کے طول و عرض میں مسلمان قائدین نے ہر سطح پر متحرک ہوکر علیحدہ قومیت کا احساس اجاگر کیا اور پھر مسلم لیگ کے جھنڈے تلے قائد اعظم کی قیادت میں انگریزوں اور ہندوؤں سے اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد شروع ہوئی۔ 1928ء میں نہرو رپورٹ نے ہندو ذہنیت کو آشکار کر دیا اور مسلمانوں سے جداگانہ حق رائے دہی واپس لینے سے یہ واضح ہوگیا کہ انگریزوں سے آزادی کے بعد یہاں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا جائے گا، کیوں کہ عیار اور چالاک ہندو قیادت جو صدیوں سے مسلمانوں کی حکومت میں خود محرومی اور مایوسی کا شکار ہوگئی تھی، اسے اب اپنی من مانی کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اگرچہ مغلیہ دور میں دربار میں مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کو بھی جگہ دی گئی تھی اور ان کے حقوق کا خیال رکھا گیا تھا، مگر ہندو ذہنی طور پر چوں کہ ذات پات کے خوگر رہے تو ان کی عام نفسیات یہ تھی کہ وہ مغلیہ بادشاہت میں بھی خود کو ہمیشہ کمتر اور نچلے درجے کا خیال کرتے رہے۔ ادھر ہندوؤں کو گاندھی کی صورت میں ایک ذہین مگر نہایت چالاک راہ نما میسر آگیا تھا۔ گاندھی اور دوسرے ہندو لیڈر اس دور میں فلسفۂ وطنیت کے ذریعے مسلمانوں کی منفرد نظریاتی شناخت کو مٹانے کی کوشش کررہے تھے تو علامہ اقبال نے مسلمانوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
مسلمانوں نے اسے اپنا نعرہ بنا لیا اور علّامہ اقبال کا یہ مصرع ان کی زبان پر تھا کہ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی۔ یوں دو قومی نظریہ یا نظریۂ پاکستان کے ناقدین کے پاس کہنے کو کچھ نہ رہا اور پھر قیام پاکستان کے لیے جدوجہد تیز تر ہوگئی۔ فکری و سیاسی مباحثے روزمرہ کا بن گئے۔ علیحدہ وطن کے مطالبے نے ہر نوجوان کو شعلہ جوالہ بنا دیا۔ اور پاکستان بن گیا جسے بھارت شاید آج تک قبول نہیں کرسکا ہے۔
عظیم مفکر، شاعرِ مشرق اور صاحب بصیرت سیاسی راہ نما علامہ اقبال کے بعد قائد اعظم کی بصیرت، فراست، معاملہ فہمی اور دور اندیشی نے قوم کو ہندو قیادت کی بدنیتی، چالاکیوں اور سازشوں پر خبردار کیا۔ موہن داس کرم چند گاندھی المعروف مہاتما گاندھی کا مقصد ہندوستان میں رام راج کا قیام تھا۔ وہ عمر بھر اسی کی جدوجہد کرتے رہے۔ گاندھی نے مختلف ادوار میں مسلمانوں کو اپنی سیاست کے زیرِ اثر لانا چاہا لیکن اس میں ناکام ہوئے۔ تفصیل میں جائے بغیر یہ بتائیں کہ علامہ اقبال نے 6 دسمبر 1933ء کو اپنے اخباری بیان میں پنڈت نہرو کے کچھ الزامات کا جواب دیا تھا اور اسی کے ساتھ گاندھی جی کے رویہ کو پوری طرح بے نقاب کر دیا تھا جو انھوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنایا تھا۔ گاندھی جی نے اچھوتوں کو بھی دھوکا ہی دیا۔ ان کی جگہ کوئی صاحبِ عزم راہ نما ہوتا تو اچھوتوں کی تقدیر بدل سکتی تھی۔ الحمدللہ اسلامیانِ ہند اس قسم کی ذات پات کی تفریق سے نہ صرف آزاد تھے بلکہ اسلام انھیں ایک عمارت کی طرح رہنے کا درس دیتا تھا جس سے خود ہندو بھی متاثر تھے۔
الغرض، کئی مواقع پر گاندھی کو اپنی محدود سوچ اور ہندو مفاد کی تکمیل میں ناکامی ہوئی اور وہ اقبال جیسے عظیم ملؑی راہ نما کو اپنی سیاسی چالوں میں لانے میں ناکام رہے۔ علامہ اقبال نے گاندھی کی نفسیات اور اس وقت کی سیاسی روش کو اس طرح بے نقاب کیا کہ گاندھی کی سوچ سب پر کھل گئی۔
(ماخوذ از ہندوستان کی سیاست اور گاندھی)