ہفتہ, اپریل 19, 2025
اشتہار

لالۂ طور اور نقش فرنگ تک رسائی

اشتہار

حیرت انگیز

اقبال کو ان کی زندگی ہی میں وہ احترام اور مقبولیت حاصل ہوگئی تھی جو آج تک ہندوستان میں کسی شاعر کو نصیب نہ ہو سکی۔

تقسیم سے قبل ہی ان کے پڑھنے والے اور ان کی شخصیت کے دیوانے بہت تھے اور پاکستان بننے کے بعد بھی اقبال کی بادشاہت قائم رہی اور دلوں میں‌ ان کی عظمت اور احترام راسخ ہوگیا۔ اقبال کا فلسفہ، ان کی فکر اور خیالات سے تو سب واقف تھے، مگر کلام کی تفہیم اکثر لوگوں‌ کے لیے آسان نہ تھی۔ نوجوان ان کی نظموں کی وضاحت چاہتے اور کئی مرتبہ ان کے اشعار پڑھنے کے باوجود معانی و مطلب ان پر عیاں نہیں‌ ہوتا۔ یہ اقبال کی مجلس میں‌ شریک ایک صاحب کا ایسا ہی دل چسپ قصّہ ہے۔ اسے پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی نے اپنی تصنیف ”کلیات شرح اقبال“ میں‌ رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

ایک دفعہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے علامہ اقبال سے دبی ہوئی زبان سے یہ عرض کیا کہ ’اسرار‘ اور ’پیام‘ دونوں کتابیں سمجھ میں نہیں آتیں، لیکن ان سے قطع نظر بھی نہیں کر سکتا، دماغ قاصر سہی، لیکن دل ان کی طرف ضرور مائل ہے۔

یہ سن کر علامہ نے دریافت فرمایا کہ ”اسرارِ خودی کتنی بار پڑھی ہے؟“

جواب میں کہا ”جناب والا! ساری کتاب تو نہیں پڑھی صرف پہلا باب پڑھا، لیکن وہ سمجھ میں نہیں آیا۔ اس لیے آگے پڑھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ اب رہی دوسری کتاب تو اس کی ساری غزلیں تو پڑھ لی ہیں، لیکن نہ لالۂ طور تک رسائی ہوئی نہ نقش فرنگ تک۔“

یہ سن کر علامہ نے فرمایا کہ ”خوش نویسی یا موسیقی ایک دن میں نہیں آ سکتی تو فلسفیانہ نظمیں ایک دفعہ پڑھنے سے کیسے اور کیوں کر سمجھ میں آ سکتی ہیں؟ الفارابی نے ارسطو کی مابعد الطبیعیات کو کئی سال تک پڑھا تھا۔ تم بھی اس کی تقلید کرو اور ان کتابوں کو بار بار پڑھو!“

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں