امریکا کے ایران پر حملے کے بعد خطے میں کشیدگی عروج پر ہے مشرق وسطیٰ میں کئی اہم امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔
امریکا نے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ایران کی تین ایٹمی تنصیبات پر حملے کیے اور امریکی وزیر دفاع نے ایران کی ایٹمی صلاحیت ختم کرنے کرنے کا دعویٰ کیا۔
دوسری جانب ان حملوں کے بعد ایران کے سپریم کمانڈر سمیت حکومتی عہدیداروں کی جانب سے امریکا کو اس کا سخت جواب دینے کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔
بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی ملک کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ جنگی جرم ہے اور اس قانون کے تحت امریکا کا گزشتہ روز کا حملہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق جنگی جرم ہے اور ایران اس پر جوابی کارروائی کا قانونی حق رکھتا ہے۔
ایک امریکی اخبار نے دعویٰ بھی کیا ہے کہ ایرانی ملیشیا کی جانب سے امریکی اڈوں پر حملے کرنے کے اشارے ملے ہیں۔
مشرق وسطیٰ ہمیشہ سے امریکی دلچسپی کا مرکز رہا ہے اور یہاں متعدد ممالک میں اس کے فوجی اڈے موجود ہیں جو کئی دہائیوں سے قائم ہیں۔ اس وقت ایران کی رینج میں امریکا کے کون کون سے فوجی اڈے ہیں۔ اس رپورٹ میں اس بارے میں بتایا گیا ہے۔
ایرانی میڈیا کے مطابق اس وقت مشرق وسطیٰ میں 19 سے زائد امریکی فوجی اڈے ہیں، جن میں سے 8 اڈے مستقل ہیں۔ یہ مستقل اڈے بحرین، مصر، عراق، اردن، کویت، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں واقع ہیں۔
امریکی حکومت کے اعلان کے مطابق 2025 کے وسط تک 40 سے 50 ہزار امریکی فوجی خطے کے بڑے مستقل اڈوں اور دیگر فوجی مراکز میں تعینات ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ امریکی فوجی بحرین، کویت، قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں موجود ہیں۔ یہ فوجی اڈے فضائی اور بحری آپریشنز، لاجسٹک خدمات، انٹیلیجنس جمع کرنے اور فوجی کمانڈ و کنٹرول کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
دفاعی نقطہ نظر سے مشرق وسطیٰ میں امریکا کے اہم فوجی اڈے 5 ہیں۔
قطر کا فضائی اڈہ:
یہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے، جو 1996 میں 24 ہیکٹر رقبے پر قائم کیا گیا۔ یہاں تقریبا 100 جنگی طیارے اور ڈرونز رکھنے کی گنجائش ہے، اور 10 ہزار سے زائد امریکی فوجی تعینات ہیں۔ یہ اڈہ سینٹکام یعنی امریکی مرکزی کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔
بحرین میں واقع بحری اڈہ:
بحریہ کے حوالے سے یہ امریکا کا اہم بحری اڈہ ہے جہاں لگ بھگ 9 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ یہ اڈہ اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ یہ امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے کا مرکز ہے، جو خطے میں امریکی بحری جہازوں اور سمندری راستوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔
کویت میں واقع عریفجان ایئر بیس:
یہ ایئر بیس کویت شہر سے 55 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے اور 1999 میں قائم کی گئی تھی۔ یہ امریکی فوج کی لاجسٹک اور کمانڈ سرگرمیوں کا مرکز ہے۔
یو اے ای میں الظفرہ ایئر بیس:
یہ امریکا کا ایک اسٹریٹجک فضائی اڈا ہے، جس کا بنیادی مقصد جاسوسی معلومات اکٹھی کرنا اور اس کے ساتھ ہی فضائی حملوں کی معاونت فراہم کرنا ہے۔ اس ایئر بیس پر ایف 22 جنگی طیارے، ڈرونز، ایئر وارننگ سسٹمز اور اواکس طیارے تعینات ہیں۔
عراق میں اربیل فضائی اڈہ:
یہ اڈہ شمالی عراق اور شام میں امریکی فوجی کارروائیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس کے علاوہ یہ تربیتی مشن، انٹیلی جنس شیئرنگ اور لاجسٹک تعاون کا مرکز بھی ہے۔
حالیہ تنازع کے بعد امریکا نے مشرق وسطیٰ میں فوجی سرگرمیاں کتنی بڑھائیں؟
دوسری جانب اسرائیل کے ایران پر حملے کے بعد امریکا جو پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی سرگرمیاں بڑھا چکا ہے۔ امریکی وزارت دفاع نے 16 جون کو اعلان کیا تھا کہ امریکا کا قدیم ترین طیارہ بردار بحری جہز ’’یو ایس ایس نیمٹز‘‘ جنوبی بحیرہ چین سے مشرق وسطیٰ کی جانب بڑھ رہا ہے۔
امریکا نے آئندہ ہفتے طیارہ بردار بحری جہاز "یو ایس ایس فورڈ” کو یورپ میں تعینات کرنے کا بھی اعلان کیا ہے، جو بحر روم کے مشرقی حصے اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے قریب گشت کرے گا۔
ایران، اسرائیل اور امریکا کشیدگی سے متعلق تمام خبریں
امریکی حکام کے مطابق، اسرائیل کے قریب موجود تین امریکی جنگی بحری جہازوں کے علاوہ ایک اور تباہ کن جنگی جہاز خطے میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دو دیگر جنگی جہاز بھی بحیرہ احمر میں موجود ہیں۔ یہ تمام جنگی جہاز اسرائیل کے قریب تعینات کیے گئے ہیں تاکہ ایرانی میزائلوں کو روکا جا سکے۔