ماہر بین الاقوامی امور شجاع نواز نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ”خبر محمد مالک کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تاریخی اعتبار سے جب میں دیکھتا ہوں تو بہت سی چیزیں جو اب سامنے آرہی ہیں وہ پہلے ہوچکی ہوتی ہیں، ان چیزوں سے سیکھنا پڑتا ہے، جو ممالک سیکھتے ہیں وہ ترقی کرتے ہیں، ان کی فتح ہوتی ہے اور جو نہیں سیکھتے ان کی ہار ہوتی ہے۔
ماہر بین الاقوامی امور شجاع نواز نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کا جہاں تک تعلق ہے ایک چیز میں نے دیکھی ہے، یہ ہر چیز کو وار گیم کے ذریعے ٹریس کرتے ہیں اور یہ وار گیم محدود نہیں ہوتی، اس میں وہ فوجی افسران،عام شہریوں، ماہرین کو استعمال کرتے ہیں، مختلف اداروں کو لاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2002میں وہ وار گیم ہوئی تھی، جس کا نام تھا ”ملینیئم چیلنج“اس میں ساڑھے 13ہزار امریکی فوجی شامل تھے، اس کا خرچہ 235ملین ڈالر تھا، اس کا بنیادی طریقہ کار یہ تھا کہ 5 سال بعد ایران پر ایک حملہ ہو، اور اسے فتح کیا جائے، اس وار گیم میں ایران کے سپریم لیڈر جو چنے گئے تھے وہ رابرٹ اوکلے اور آرمی چیف ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل رین رائپر کو چنا گیا۔
مزید تفصیلات کے لئے ویڈیو ملاحظہ کیجئے۔
How and why did Robert Oakley become Iran’s supreme leader. celebrated author @shujanawaz shares an amazing piece of history so relevant to these times.#IranVsIsrael #Trump #Khamenei pic.twitter.com/Ib9Haajia4
— Mohammad Malick (@MalickViews) June 24, 2025