ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکی نمائندے کے بیان پراپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے جوہری افزودگی کے حق پر کسی قسم کی بات نہیں ہوسکتی۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ اسٹیو وٹکوف کی جانب سے متضاد بیان سننے کو ملا ہے، حقیقی موقف مذاکرات کی میز پر ہی واضح ہوگا۔
انہوں نے واضح کیا کہ جوہری افزودگی پر ممکنہ خدشات دور کرسکتے ہیں، لیکن افزودگی کے حق پر کوئی بات نہیں ہوسکتی۔
قبل ازیں مشرق وسطیٰ کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے اسٹیو وٹکوف نے کہا تھا کہ امریکا کے ساتھ معاہدے پر پہنچنے کے لیے ایران کو جوہری افزودگی روکنی، ختم کرنی ہوگی۔
واضح رہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب نے امریکا کے ساتھ جوہری پروگرام پر مذاکرات کے دوسرے دور سے قبل واضح کر دیا تھا کہ فوجی صلاحیتوں پر کوئی بات چیت یا مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
ترجمان ایرانی پاسداران انقلاب علی محمد نینی نے ایرانی نشریاتی ادارے IRIB کو بتایا کہ قومی سلامتی، دفاع اور فوجی طاقت ایران کی سرخ لکیروں میں سے ہیں جن پر کسی صورت بات چیت یا مذاکرات ممکن نہیں۔
ایران اور امریکا ہفتے کے روز مسقط میں مذاکرات کا ایک اور دور شروع کرنے والے ہیں۔ یہ پیشرفت 2015 کے جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد اعلیٰ سطحی بات چیت کیلیے عمانی دارالحکومت میں اعلیٰ حکام کی ملاقات کے بعد سامنے آئی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت کے دوران 2015 میں واشنگٹن کو معاہدے سے الگ کر دیا تھا جبکہ رواں سال جنوری میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے وہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
مارچ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط ارسال کیا جس میں جوہری مذاکرات کا مطالبہ اور انکار کی صورت میں ممکنہ فوجی کارروائی کا انتباہ دیا گیا۔
امریکی صدر نے ایران کے حوالے سے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اس مسئلے کو حل کروں گا، یہ تقریباً ایک آسان مسئلہ ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا محکمہ صحت کی فنڈنگ سے 40 ارب ڈالر کم کرنے کا فیصلہ
انہوں نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی دھمکی بھی دی تھی اور ایرانی حکام کو بنیاد پرست قرار دیا۔ تہران نے بارہا ایٹم بم کے حصول کی تردید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔