آج سے 40 سال پہلے ہر خاص و عام کی پہلی ترجیح ایرانی چائے خانے اور ریسٹورنٹ ہوا کرتے تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے یہ کیفے کراچی کی طرز زندگی کا حصہ بنے، 70 کی دہائی تک عروج دیکھا، پھر آہستہ آہستہ بدلتے حالات میں ایک ایک کر کے بند ہوتے چلے گئے۔ مگر اب بھی گنتی کے چند کیفے موجود ہیں جو ماضی کی یاد تازہ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کبھی ہم خوب صورت تھے!
بیسویں صدی کے آغاز میں ایرانی روزگار کے لیے کراچی آئے، یہاں چائے کیفے اور بیکریاں کھولیں اور بعد میں یہاں کھانے بھی ملنے لگے۔ ابتدا میں یہاں 100 سے زائد ریسٹورنٹ تھے جو اب گنتی کے رہ گئے ہیں۔ ان کیفے اور بیکریوں کے مالکان کی اکثریت کا تعلق بہائی مذہب سے تھا۔ ایرانی ہوٹل کے مالک خداداد روہانی کے صاحب زادے فرشید روحانی کہتے ہیں والد صاحب کی نصیحت تھی کبھی معیار پر سمجھوتا نہیں کرنا۔ چائے کی پتی مہنگی اور معیاری ہوتی تھی۔ دودھ بھی خالص ہوتا تھا۔ ہماری چائے کا ذائقہ منفرد ہوتا تھا۔ ایرانی کیفے کے اپنے مخصوص ذائقے آج بھی اپنے گاہکوں کے ذہنوں میں موجود ہیں۔
ایرانی ریسٹورنٹ اپنے معیار، صفائی ستھرائی، بہترین انتظام اور تہذیب کی وجہ سے لوگوں کو پسند تھے۔ ہوٹل کے مالک اور پرانے ملازم کے مطابق پہلے یہاں گفتگو میں ادب لازمی جزو تھا، مگرجوں جوں شہرکی آبادی بڑھتی گئی یہاں کا مزاج بھی بدلتا گیا۔ چائے کا معیار بہت اعلیٰ اور ذائقہ قدرے مختلف ہوتا تھا۔ پیٹیز، ٹی کیک آج بھی یہاں آنے والوں کو بھاتے ہیں۔ مگر کھانے کے مینیو اور ذائقے میں جدت کے ساتھ تبدیلی آ گئی ہے۔
ٹرمپ نے ادارے بند کرنے کی پالیسی کہاں سے لی؟ نوم چومسکی کی کتاب پر آڈیو پوڈ کاسٹ، حیرت انگیز انکشافات
یہ کیفے ملاقاتوں اور مشاورت کے لیے بہترین جگہ تھی۔ لکھاری، دانش ور، صحافی اور آرٹسٹ یہاں آیا کرتے تھے۔ فرشید روحانی اچھے وقتوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہلے سینما گھروں میں لگنے والی فلموں کے اشتہارات بھی ایرانی ہوٹل میں لگائے جاتے تھے ۔ ہمارے ہوٹل میں نامور شخصیات بھی آتی تھیں۔ ان سے ملاقات بہت سے یادیں وابستہ ہیں۔
بدلتے حالات اور لوگوں کے مزاج کی وجہ سے ایرانی کیفے کا سنہرا دور ماضی کی فضاؤں میں کہیں کھو گیا ہے، شہر میں موجود گنتی کے ایرانی کیفے سنہرے دور کی واپسی کی امید ہیں یا ماضی کی یادگار۔۔۔۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا!