واشنگٹن: ایران اور امریکا کے درمیان جوہری معاہدے پر مذاکرات کا دوسرا دور آج روم میں ہوگا۔
عرب میڈیا کے مطابق ایران نے امریکا سے جوہری مذاکرات پر مشروط رضا مندی ظاہر کر دی ہے، گزشتہ روز ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ اگر امریکا حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے تو جوہری معاہدہ ہو سکتا ہے، امریکا کو غیر حقیقی مطالبات سے گریز کرنا ہوگا۔
اس سے پہلے امریکی صدر ٹرمپ معاہدہ نہ کرنے پر ایران کو حملے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ تاہم دوسری طرف الجزیرہ نے کہا ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے واشنگٹن کے ساتھ جوہری مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہونے سے ایک روز قبل امریکا کے ارادوں پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے لیے گرفتار شخص کی غلط ڈیپورٹیشن درد سر بن گئی
ایک ہفتہ قبل دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ ترین سطح کے مذاکرات ہوئے تھے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے 3 سال بعد 2018 میں یک طرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد سے ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر تمام حدود کو ختم کیا، اور یورینیم کو 60 فی صد تک افزودہ کر لیا ہے، جب کہ ہتھیار بنانے کے درجے تک پہنچنے کے لیے 90 فی صد تک افزودگی درکار ہے۔
عراقچی نے جمعہ کے روز ماسکو میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا ’’اگرچہ ہمیں امریکی فریق کے ارادوں اور محرکات پر شدید شکوک و شبہات ہیں، تاہم ہم کل ہونے والے مذاکرات میں شرکت کریں گے۔‘‘
عباس عراقچی ہفتے کے روز عمان کی ثالثی میں امریکا کے مشرق وسطیٰ کے سفیر اسٹیو وٹکوف کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور کے لیے روم روانہ ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہم ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے پرامن حل کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
دریں اثنا، لاوروف نے کہا کہ ماسکو ’’کوئی بھی ایسا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے جو ایران کے نقطہ نظر سے مفید ہو اور جو امریکا کے لیے بھی قابل قبول ہو۔‘‘