واشنگٹن: امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایران امریکی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے جوہری پروگرام پر لچک دکھانے پر آمادہ ہو گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایران اور امریکا کے درمیان جوہری پروگرام پر مذاکرات کا دوسرا دور مثبت پیش رفت پر ختم ہو گیا ہے، امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایران امریکا جوہری مذاکرات کا دوسرا دور مثبت رہا، مذاکرات میں امریکی وفد کی سربراہی صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندہ اسٹیو وٹکوف نے کی جب کہ ایران کے وفد کی سربراہی ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کی۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ ایران امریکا مذاکرات کا دورانیہ 4 گھنٹے جاری رہا، اور مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے، ایرانی وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہم مذاکرات میں کچھ اصولوں اور اہداف پر بہتر تفہیم اور معاہدے تک پہنچ گئے، مذاکرات میں مزید بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کا ایک اور فیصلہ، ٹرمپ انتطامیہ کو بڑا جھٹکا
تہران میں تین سفارتی ذرائع نے ایران انٹرنیشنل کو بتایا کہ ایران نے ہفتے کے روز روم میں ہونے والی بات چیت کے دوران امریکی وفد کو تین مرحلوں پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا ہے، جس میں امریکی پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں یورینیم کی افزودگی کی حد مقرر کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
یہ منصوبہ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بات چیت کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کو تحریری طور پر پیش کیا۔ سفارتی ذرائع کے مطابق تہران نے تجویز پیش کی کہ پہلے مرحلے میں، وہ اپنی یورینیم کی افزودگی کی سطح کو عارضی طور پر 3.67 فی صد تک کم کر دے گا، جس کے بدلے میں امریکا کے منجمد مالیاتی اثاثوں تک رسائی اور اسے تیل برآمد کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
ذرائع نے مزید کہا کہ دوسرے مرحلے میں، اگر امریکا ایران پر سے مزید پابندیاں ہٹاتا ہے اور برطانیہ، جرمنی اور فرانس کو تہران پر اقوام متحدہ کی نام نہاد پابندیوں کے نام نہاد اسنیپ بیک کو متحرک کرنے سے باز رہنے پر راضی کرتا ہے، تو ایران اعلیٰ سطحی افزودگی کو مستقل طور پر ختم کر دے گا اور اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے معائنہ کو بحال کر دے گا۔
دریں اثنا، مذاکرات سے قبل جمعہ کو امریکی نمائندے نے اسرائیلی خصوصی نمائندے سے بھی ملاقات کی، پیرس میں ہوئی ملاقات میں اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی موساد کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بارنیا بھی موجود تھے۔ دوسری طرف مذاکرات سے پہلے ایرانی وزیر خارجہ نے ماسکو میں صدر پیوٹن اور روسی وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی۔
امریکی میڈیا کے مطابق ایران امریکا کے ساتھ کسی بھی معاہدے میں روس کا امدادی کردار دیکھ رہا ہے، ایران نے واضح کیا ہے کہ جوہری پروگرام ہتھیار بنانے کے لیے نہیں، سویلین استعمال کے لیے ہے۔ واضح رہے کہ مذاکرات سے پہلے سعودی وزیر دفاع خالد بن سلمان نے ایران کا اہم دورہ بھی کیا تھا۔
ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور آئندہ ہفتے مسقط میں ہوگا۔
بات چیت کے بعد، عراقچی نے ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ مذاکرات ’’تعمیری ماحول میں منعقد ہوئے‘‘ اور ’’آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا ’’زیادہ پر امید ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم واقعی پر امید ہیں، ہمیں بہت محتاط رہنا چاہیے، لیکن زیادہ مایوسی کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘‘