تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

ٹریفک حادثے میں‌ جاں‌ بحق ہونے والی شاعرہ کے والد کے نام خطوط

فروغ فرخ زاد کا فن ہی نہیں ان کی زندگی بھی روایت اور کسی بھی معاشرے کی اس ڈگر سے ہٹ کر بسر ہوئی جس پر چلنے والے کو "باغی” کہا جاتا ہے۔

1934ء میں‌ ایران کے قدیم و مشہور شہر تہران میں آنکھ کھولنے والی فروغ فرخ زاد نے شاعرہ اور فلم ساز کی حیثیت سے شہرت پائی۔ ان کے والد فوج میں کرنل تھے۔ سولہ سال کی عمر میں‌ انھوں‌ نے شادی کی جو ناکام ثابت ہوئی۔

فروغ فرخ زاد کے فارسی زبان میں‌ شعری مجموعے خاصے مقبول ہوئے۔ ان کی نظم "ہمیں سرد موسم کی ابتدا پر یقین کرنے دو” کو فارسی کی منفرد نظم کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری کا انگریزی زبان میں‌ بھی ترجمہ ہوا۔

وہ فلم ساز اور ہدایت کار بھی تھیں۔ ان کی ایک دستاویزی فلم "گھر سیاہ ہے” بہت مشہور ہوئی۔

فروغ فرخ زاد 32 سال کی تھیں‌ جب کار میں دورانِ سفر ایک اسکول بس کو حادثے سے بچاتے ہوئے شدید زخمی ہوگئیں اور اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا۔ موت کے بعد ان کے خطوط کا ایک مجموعہ شائع ہوا جس میں‌ والد کے نام ان کے چند نامے لائقِ مطالعہ ہیں۔ شائستہ خانم نے فارسی سے ان خطوط کا اردو ترجمہ کیا ہے، جن میں‌ سے چند سطور قارئین کی نذر ہیں۔ یہ اقتباسات ان کی ذہنی کشمکش اور کرب کو عیاں کرتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں:

"مجھے آپ چھوڑ دیں، دوسروں کی نظر میں مجھے بدنصیب اور پریشان حال رہنے دیں۔میں زندگی سے گلہ نہیں کروں گی۔ مجھے خدا اور اپنے بچّے کی قسم! میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں، آپ کے بارے میں سوچتی ہوں تو آنسو نکل آتے ہیں۔

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ خدا نے مجھے اس طرح کیوں پیدا کیا ہے۔ اور شاعری نامی شیطان کو میرے وجود میں کیوں زندہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے میں آپ کی خوشی اور محبت حاصل نہیں کر پائی لیکن میرا قصور نہیں ہے۔ میرے اندر ایک عام زندگی گزارنے اور برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، جیسے لاکھوں دوسرے لوگ گزارتے ہیں۔”

ایک اور خط میں‌ انھوں‌ نے والد کو لکھا:

"آپ سوچیے کہ میں بری لڑکی نہیں ہوں اور جان لیجیے کہ آپ سے محبّت کرتی ہوں۔ میں ہمیشہ آپ کی خیریت سے آگاہ رہتی تھی۔ اور میں ایسی ہوں کہ محبّت اور تعلق خاطر کو ظاہر نہیں کرتی جو کچھ ہوتا ہے اپنے دل میں رکھتی ہوں۔ آپ میرے لیے ہر مہینے کچھ رقم بھیجتے ہیں، اس کے لیے میں بہت ممنون ہوں۔ میں آپ پر بوجھ بننا نہیں چاہتی لیکن کیا کرسکتی ہوں، میری زندگی بہت سخت تھی، لیکن ایک دو ماہ مزید میں یہاں ہوں کہ مجھے کام مل جائے، پھر شاید مجھے ضرورت نہ ہو۔

جب میں تہران آؤں گی تو مال دار ہوں گی اور آپ کا قرض واپس کر دوں گی۔ اگر آپ مجھے جواب دیں گے تو مجھے بہت خوشی ہوگی، جیسے دن میں اب گزار رہی ہوں، بہت سخت اور درد ناک ہیں اور قبر میں سوئے ہوئے آدمی کی طرح اکیلی ہوں۔

مٹّھی بھر تلخ اور عذاب ناک سوچیں ہیں اور ایک مٹّھی بھر غصہ جو کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔ اب میں کوئی ایسا کام بھی نہیں کرسکتی جس سے آپ کو راضی کرسکوں، لیکن شاید ایک دن آئے کہ آپ بھی مجھے حق دیں اور دوبارہ مجھ پر ناراض نہ ہوں اور مجھ پر دوسرے بچّوں کی طرح مہربان ہو جائیں۔”

Comments

- Advertisement -