تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

دوا کا نسخہ

لڑکی دوا فروش سے سکون آور دوا کا مطالبہ کررہی تھی اور وہ کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر کا نسخہ دکھاؤ۔

لڑکی کو یہ مطالبہ کچھ عجیب سا لگا کیوں کہ وہ خواب آور دوا نہیں مانگ رہی تھی۔ دوا فروش اس کی بات تو سمجھ گیا لیکن سکون آور دوا کے لیے بھی ڈاکٹر کا نسخہ ضروری تھا۔

لڑکی اب بحث پر اتر آئی۔ ”سکون آور دوا سے کسی قسم کے نقصان کا خطرہ نہیں ہے اور میں اس دوا کی عادی ہوں۔“

دوا فروش نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ”سوال یہ نہیں ہے کہ تم کیا کیا استعمال کرتی رہی ہو۔ تم جو کررہی ہو، یہ ایک خطرناک حرکت ہے۔“

”یعنی تم سمجھتے ہو کہ میرا خود کُشی کا ارادہ ہے؟“

”نہیں ایسا تو نہیں، مگر اس میں کافی خطرہ ہے۔“

اب لڑکی نے ذرا مختلف انداز میں سوال کیا۔ ”تمہارے پاس سکون آور دوائیں کون کون سی ہیں۔“

دوا فروش نے ایک نام بتایا۔ یہ ایک بہت ہی معمولی طاقت کی دوا تھی اور اس کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ پھر بھی اس کا خیال تھا کہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

”دیکھو! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔“ لڑکی نے جھلا کر کہا۔

”اگر کوئی اس دوا سے خودکشی کرنے کی کوشش کرے تو اسے کم از کم ایک سو گولیاں کھانی ہوں گی۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی درجن بوتلیں درکار ہوں گی۔ انھیں نگلنے کے لیے بھی گھنٹوں لگ جائیں گے اور بے اندازہ پانی پینا پڑے گا۔ یہ تمام ملغوبہ مل کر اس کے پیٹ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دے گا اور اس قدر طویل وقت کو دیکھتے ہوئے موت کو بھی کچھ سوچنا پڑے گا۔

گولیوں کو اپنا اثر دکھانے کے لیے ایک معقول وقت چاہیے اور یہ عمل پورا ہونے سے پہلے پہلے وہ آدمی اپنی حرکت سے توبہ کرلے گا اور فوراً اسپتال پہنچ جائے گا جہاں ڈاکٹر اسے بچالیں گے۔ اب تو تمہاری عقل میں یہ بات سماگئی ہوگی کہ اس قدر معمولی مقدار کی سکون آور دوا خودکشی کے لیے ناکافی ہے۔“

”آپ بڑی ذہین اور سمجھ دار خاتون ہیں۔“ دوا فروش نے مرعوب ہوتے ہوئے کہا۔ ”آپ پورے مرحلے سے اچھی طرح با خبر ہیں، فرض کرلیں کہ آپ کی تمام باتیں تسلیم کر لیتا ہوں…..“

”آپ جو کچھ بھی سوچ رہے ہیں وہ سب غلط ہے۔“ لڑکی نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
دوا فروش نے یہ دیکھتے ہوئے کہ مزید بحث کرنا فضول ہے، اسے ایک بوتل پکڑا دی۔ لڑکی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور باہر نکل گئی۔

اس نے دوسری فارمیسی میں بھی یہی ڈراما دہرایا۔ تیسری فارمیسی میں اسے اپنی کہانی سنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ دوا فروش نے بلا حیل و حجت ایک شیشی اسے پکڑا دی۔ چوتھی میں اسے زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں پڑی اور اسی طرح پانچویں میں بھی اور اسی طرح سلسلہ چلتا رہا۔

اخبار میں خبر کی اشاعت ہوئی کہ ایک نوجوان لڑکی اپنے بستر پر مردہ پائی گئی۔ اس کے قریبی میز پر سکون آور دوا کی کئی بوتلیں خالی پڑی تھیں اور اس کے ساتھ ہی ایک نوٹ بھی رکھا ہوا تھا۔

”میں نے اس زندگی کو خود پسند کیا تھا اور اس کے لیے کسی سے رائے نہیں مانگی، مگر زندگی نے میری قدر نہ کی لہٰذا میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، اپنی زندگی کو ختم کرلینے کا فیصلہ بھی میرا اپنا ہے۔“

لوگوں نے یہ خبر پڑھ کر اظہار تاسف کیا۔ بے چاری لڑکی! نہ جانے کس بات سے عاجز آکر اس نے یہ فیصلہ کر ڈالا۔ ایک شخص نے تبصرہ کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نے اس کے ساتھ بے وفائی کی، دوسرے نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

دوا فروش نے اپنا بیان دیتے ہوئے کہاکہ وہ پوری طرح اپنے ہوش و حواس میں تھی اور اس نے خودکشی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا تھا۔

دوا فروش نے اخبار میں تصویر دیکھ کر اس کو پہچان لیا اور اپنے بیان میں کہاکہ اب اس بات کو زیادہ طول نہ دیا جائے جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ اس کی ماں نے زار و قطار روتے ہوئے کہا۔

”ہم نے اس کی جان بچانے کی سَر توڑ کوشش کی۔ اس کی زندگی میں کوئی راز نہیں تھا۔ اسے اپنی زندگی سے بے حد پیار تھا۔ وہ بے حد شرارتی اور کھلنڈری لڑکی تھی۔ شاید اس نے کوئی شرارت سوچ کر یہ حرکت کی ہوگی۔

(اس کہانی کے مصنف ڈیزی الامیر (عراق) اور مترجم ابوالفرح ہمایوں ہیں)

Comments

- Advertisement -