اسلام آباد: حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن سینیٹر عرفان صدیقی نے واضح کیا ہے کہ جو معاملات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ان پر بات نہیں کی جا سکتی۔
عرفان صدیقی نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم انکار یا اقرار نہیں کرتے لیکن کمیٹی تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی، پی ٹی آئی نے دو کمیشن کے حوالے سے 15 ٹی او آرز پیش کیے، ان کو مطالبات مرتب کرنے میں 42 دن لگے۔
انہوں نے کہا کہ مطالبات کے ساتھ انہوں نے الزامات کی فہرست نتھی کی، یہ مطالبات کم حکومت کے خلاف چارج شیٹ زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈا پور کی طاقتور حلقوں سے بیک ڈور رابطوں کی تصدیق
ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کا ایک بار پھر مطالبہ کیا گیا ہے، ہم نے پرآمادگی ظاہر کی ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہو جائے گی۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ معاملات آگے بڑھتے ہیں تو پھر 31 جنوری کی ڈیڈ لائن نہیں ہونی چاہیے۔
’دعا کرتے ہیں عمران خان کو کل سزا ہو جائے‘
قبل ازیں، عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ دعا کرتے ہیں بانی پی ٹی آئی کو کل سزا ہو جائے اور کیس جیل سے نکل کر باہر آ جائے، یہ بانی کا نہیں عدلیہ کا امتحان ہے۔
علمیہ خان نے کہا کہ القادر ٹرسٹ احمقانہ کیس ہے، اتنی تاریخیں ڈالی ہیں ہم تو صرف تاریخیں بھگت رہے ہیں، عمران خان کو کریڈٹ ملنا چاہیے سارے کیسز کا سامنا کر رہے ہیں، کوئی پاس ہوگا کوئی فیل اب بانی پی ٹی آئی نے سب کو امتحان میں ڈالا ہوا ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا عمران خان ڈیڑھ سال اس لیے جیل میں رہے کوئی آ کر انہیں نکال دے، نواز شریف رحم کرے بانی رحم کیلیے نہیں بیٹھے وہ کیسز کا سامنا کر کے سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔
عمران خان کی ہمشیرہ کا مزید کہنا تھا کہ اگر بریت نہیں ہوتی تو یہ پہلے دن فیصلہ سنا دیتے کیس میں تھا ہی کچھ نہیں، پہلے 23 دسمبر کو فیصلہ دینا تھا پھر 6 جنوری اور اب 17 جنوری تاریخ دی گئی۔