تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

کیا ویکسین میں بھی وائرس کا استعمال کیا جاتا ہے؟

وائرس صرف ایک زندہ خلیے کے اندر ہی نشوونما پا سکتا ہے جبکہ دیگر خردبینی جانداروں کو زندہ رہنے کے لیے مٹی، پانی، ہوا اور نامیاتی فضلہ جیسے ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ وائرس ایک جانب بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، وہیں اس کا استعمال ویکسین بنانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ وائرس مزید کیا کیا کرسکتا ہے آج ہم اس بارے میں آپ کو بتاتے ہیں۔

مائیکرو بائیولوجسٹ وسالاکشی اریجیلا کا وائرس کے نشوونما پانے سے متعلق کہنا ہے کہ صدیوں سے وائرس دنیا میں بیماریوں کا باعث بنتا چلا آرہا ہے، وائرس عام طور پر مائیکروا سکوپک اور انفیکشن پیدا کرنے والا ایجنٹ ہے، وہ دنیا میں موجود تمام جاندار چیزوں کے مقابلے سب سے چھوٹا ہے۔

وسالاکشی کہتی ہیں کہ یہ وائرس اتنے چھوٹے ہیں کہ انہیں ایک خاص خوردبین کی مدد سے دیکھا جاسکتا ہے، جسے ‘الیکٹران مائیکرواسکوپ’ کہتے ہیں، انہوں نے اپنے آرٹیکل میں وائرس کی مزید خصوصیات کا احاطہ کیا ہے۔

وسالاکشی کا کہنا ہے کہ یہ مائیکروبس خود بخود نشوونما پاتے ہیں اور کسی بھی ماخذ جیسے مٹی، پانی، ہوا اور نامیاتی فضلہ سے تغذیہ حاصل کرسکتے ہی، یہ وائرس صرف زندہ خلیوں جیسے جانوروں، پودوں، انسانوں اور دیگر جراثیموں کے اندر نشوونما پا سکتے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے ایک اہم سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مٹی، پانی، ہوا اور نامیاتی فضلہ جیسے ذرائع میسر ہونے کے باوجود بھی وائرس خود بخود نشوونما کیوں نہیں کر پاتے ہیں؟

جس کا مفصل جواب دیتے ہوئے وسالاکشی کا کہنا تھا کہ وائرس کے پاس انٹرنل مشینری نہیں ہوتی جو انہیں نشوونما میں سہارا دے سکے، انہیں نشوونما کے لیے زندہ خلیوں کے ساتھ رہنے کی سخت ضرورت ہے۔

کیونکہ وائرس کو زندہ رہنے کے لئے پہلے انہیں میزبان خلیوں میں داخل ہونا پڑتا ہے، اس کے بعد وہ میزبان خلیوں کے اندر بڑی تعداد میں پھلتا پھولتا ہے ، اس کے بعد وائرس جسم کو اپنے ہونے کی علامت بتاتا ہے اور آخر کار بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔

جب ہم نے وسالاکشی نے سوال کیا کہ وائرس سے پیدا ہونے والی تمام علامت خطرناک ہوتی ہیں یا نہیں، جس پر انہوں نے وائرس سے ہونے والی بیماریوں کی مثال دے کر سمجھایا کہ یہ بیماریاں عام طور پر انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔

وسالاکشی کے مطابق نزلہ، زکام جس کے بارے میں ہم سب واقف ہیں، وہ ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس کی علامت ہم سب جانتے ہیں۔لیکن اگر وائرس سے ہونے والی دیگر بیماریوں کے بارے میں بات کریں جیسے پولیو، ایڈز، خسرہ جیسی دیگر بیماریاں کی علامت شدید ہوتی ہیں، اس کے نتیجے میں وہ میزبان خلیوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ معاملات میں یہ مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔

جب ہم وائرس کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم صرف بیماریوں کے بارے میں ہی سوچتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک خوف بھی پیدا ہوتا ہے، سب سے اہم سوال جو ذہن میں آتا ہے کہ انھیں روکا جاسکتا ہے یا نہیں؟

وائرس کیسے میزبان خلیہ میں منتقل ہوتا ہے، اس کے طریقہ کار کو سمجھ کر حفاظتی اقدامات پر عمل پیرا ہوکر ان سے بچاجاسکتا ہے، ایک میزبان خلیے سے دوسرے میں منتقل ہونے والا وائرس قریبی رابطوں، آلودہ کھانوں، پانی کے ذریعے یا پھر ہوا میں معلق بوندوں کے ذریعے پھیلتا ہے۔وائرس کی منتقلی کے مطابق ہم آسان اقدامات پر عمل کرسکتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -