عشرت رحمانی ایک ممتاز ادیب، مؤرخ، نقاد اور براڈ کاسٹر تھے جنھوں نے لگ بھگ سو کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ آج عشرت رحمانی کا یومِ وفات ہے۔
ان کا اصل نام امتیاز علی خان تھا۔ 16 اپریل 1910ء کو رام پور (یو پی) میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی آگئے اور یہیں 20 مارچ 1992ء کو وفات پائی۔ تاریخی اور سوانحی موضوعات پر انھوں نے بڑا وقیع کام کیا۔ آل انڈیا ریڈیو پر سے عشرت رحمانی کی وابستگی ان دنوں ہوئی جب پطرس بخاری وہاں کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے۔ اردو کے مایہ ناز ادیب اور مقبول مزاح نگار پطرس بخاری اپنی طباعی، غیر معمولی ذہانت اور مختلف علوم وفنون میں واقفیت رکھنے کے سبب ہندوستان بھر میں جانے جاتے تھے۔ پطرس بخاری کی شگفتہ مزاجی، بزلہ سنجی اور ہمہ گیر لیاقت و ذہانت ہر اعلیٰ وادنیٰ محفل میں ان کی ذات کو ممتاز بنائے رہتی تھی۔ عشرت بخاری کو ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور وہ بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہاں ہم عشرت رحمانی کی ایک تحریر سے وہ اقتباس نقل کررہے ہیں جس میں انھوں نے بخاری صاحب کی شخصیت اور ان کے اوصاف کو بیان کیا ہے۔
عشرت رحمانی لکھتے ہیں: "بخاری صاحب ضابطہ و قاعدہ کے سختی سے پابند ہونے کے باوجود ہر معاملے کو چٹکی بجاتے باتوں باتوں میں طے کر دیتے تھے۔ مشکل سے مشکل مسئلہ کو نہایت خندہ پیشانی سے باآسانی حل کرنا ان کے ضابطہ کا خاصہ تھا۔ ان کی ضابطہ کی زندگی کے بے شمار واقعات و مطائبات مشہور ہیں جن کا بیان اس مختصر مضمون میں دشوار ہے وہ اپنے تمام ماتحت اہلکاروں سے ایک اعلیٰ افسر سے زیادہ ایک ناصح مشفق کا سلوک اختیار کرتے۔ ہر شخص کی ذہنی صلاحیت اور قابلیت کو بخوبی پرکھ لیتے۔ اس کے ساتھ اسی انداز سے ہم کلام ہوتے اور اس کے عین مطابق برتاؤ کرتے۔ شگفتہ بیانی ان کا خاص کمال تھا۔ اور ہر شخص کے ساتھ گفتگو کے دوران میں اس کا دل موہ لینا اور بڑی سے بڑی شخصیت پر چھا جانا ان کا ادنیٰ کرشمہ تھا۔ ان کے حلقہٴ احباب میں سیاسی لیڈر، سرکاری افسران اعلیٰ، پروفیسر، عالم فاضل اور ادیب و شاعر سب ہی تھے لیکن سب ہی کو ان کی لیاقت اور حسنِ گفتار کا معترف پایا۔ ان احباب میں سے اکثر ان کے ضابطہ کے کاموں میں سفارشیں بھی کرتے لیکن وہ تمام معاملات میں وہی فیصلہ کرتے جو حق و دیانت کے مطابق ہوتا۔ لطف یہ ہے کہ خلافِ فیصلہ کی صورت میں بھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دیتے اور بڑے اطمینان و سکون سے اس طرح سمجھا کر ٹال دیتے کہ صاحبِ معاملہ مطمئن ہونے پر مجبور ہو جاتا۔”
"بخاری صاحب کا حاکمانہ برتاؤ اپنے ماتحت افسران ہی کے ساتھ مشفقانہ نہیں تھا بلکہ تمام درجوں کے ملازمین کے ساتھ بھی پسندیدہ تھا۔ ہر اہل کار ان کے حسنِ سلوک اور اخلاقِ حمیدہ کا گرویدہ اور معترف تھا۔ ماتحت عملہ میں جو ادیب، شاعر اور ان کے دوست احباب شامل تھے ان کے ساتھ دفتر میں نہایت باضابطہ اور باقاعدہ ڈائریکٹر جنرل نظر آتے لیکن نجی صحبتوں میں اسی انداز کی بے تکلفی برتتے، جس حیثیت کے تعلقات ہوتے۔ ضابطہ کی پابندی کا یہ حال تھا کہ ایک بار اسٹوڈیو کے محافظ نے ان کو حسبِ ضابطہ بغیر پرمٹ دروازے کے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ نئی دہلی پارلیمنٹ اسٹریٹ کے براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں بالائی منزل پر ڈائریکٹر جنرل کے دفاتر تھے۔ اور زیریں منزل میں دہلی اسٹیشن کے دفاتر اور اسٹوڈیوز واقع تھے۔ واقعہ یوں ہوا کہ ایک دن بخاری صاحب اپنے دفتر سے اُٹھ کر بغرض معائنہ اسٹوڈیوز کی عمارت میں جانے لگے۔اسٹوڈیوز کے دروازے پر محافظ موجود تھا جس کا پہلا فرض یہ تھا کہ وہ اندر جانے والے ہر شخص کو ٹوکے اور داخلے کا پرمٹ دیکھ کر دروازہ کھولے ورنہ باہر ہی روک دے۔
بخاری صاحب کا حکم تھا کہ اس ضابطہ کی سختی سے پابندی کی جائے اور وہ خود پرمٹ کارڈ اپنے لئے بھی ساتھ رکھتے تھے۔ اس وقت اتفاق سے پرمٹ ساتھ لے جانا بھول گئے۔ محافظ نے حسبِ صابطہ ادب سے سلام کیا۔ اور عرض کیا۔ ”حضور پرمٹ!“ ڈائریکٹر جنرل بخاری نے جیب میں ہاتھ ڈالا پرمٹ کارڈ نہ پایا، خاموشی سے مسکرائے اور واپس اپنے دفتر چلے گئے، تھوڑی دیر بعد چپراسی آیا اور محافظ کی طلبی کا حکم سنایا۔ ”ڈائریکٹر جنرل کو اس طرح بے باکی سے روک دیا۔ اب خیریت نہیں۔“ محافظ بے چارہ تھرتھر کانپنے لگا۔ باضابطہ پیشی ہوئے اور محافظ جو ڈرتا ہانپتا حاضر ہوا تھا خوش خوش اکڑتا ہوا اپنی ڈیوٹی پر واپس گیا۔ ڈائریکٹر جنرل نے اس کی فرض شناسی اور مستعدی کی تعریف کر کے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اور کئی روز تک اس محافظ کے چرچے براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں ہوتے رہے۔”