اسلام آباد : چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اگر انتظامیہ چڑیا گھر کا خیال نہیں رکھ سکتی تو جانور آزاد کرنا بہتر ہے، عدالت نے چڑیا گھر چلانے کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چڑیا گھر کے جانوروں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے متعلق پر کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کے حکم پر چڑیا گھر چلانے کے لئے چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انتظامیہ چڑیا گھر کا خیال نہیں رکھ سکتی تو جانور آزاد کرنا بہتر ہے، اسلام کیا درس دیتا ہے؟ ایم سی آئی اور اس کے ملازمین سیاست کھیل رہے ہیں، ایم آئی سی ملازمین نے اسلام آباد کے چڑیا گھر کو اللہ کی رحم کرم پر چھوڑ دیا ہے، ایم سی آئی فیل ہو گیا ہے۔
اس موقع پر جوائنٹ سیکرٹری محکمہ موسمیات نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت دو مہینے کا وقت دے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا عدالت دو ماہ کیلئے چڑیا گھر کے جانوروں کو بیمار اور مرتے ہوئے چھوڑ دے؟ نمائندہ وائلڈ لائف نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ 9 ماہ پہلے حکم جاری کیا گیا مگر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا وائلڈ لائف کے پاس چڑیا گھر کا انتظام چلانے کے لیے فنڈز ہیں؟ وائلڈ لائف کے نمائندے نے جواب دیا کہ جی بالکل فنڈ ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ سب کو آدھے گھنٹے کا وقت دیتا ہوں اس مسئلے کا فوری حل نکال لیں، جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت آدھے گھنٹے کے لیے ملتوی کر دی۔
کیس کی دوبارہ سماعت میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کے حکم پر چڑیا گھر چلانے کے لئے سیکرٹری محکمہ موسمیات کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔
چار رکنی کمیٹی میں سیکرٹری محکمہ موسمیات، میئراسلام آباد، چیئرمین سی ڈی اے اور وائلڈلائف کا نمائندہ بھی شامل ہے۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت 10 اپریل تک ملتوی کر دی۔