اتوار, نومبر 17, 2024
اشتہار

ذاکر نائیک کی آمد اور سوشل میڈیا پر جنگ

اشتہار

حیرت انگیز

بات تلخ ہے لیکن اس تلخیوں بھرے معاشرے کی حقیقت ہے۔ لوگ شاید یہ سوچتے ہوں کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سننا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا سچ میں وہ نائیک کو سننے کے لیے انھیں خوش آمدید کہہ رہے ہیں؟

سوشل میڈیا پر میں نے 100 کے قریب پوسٹوں کا بہ غور مطالعہ کیا۔ مجھے یہ نتیجہ ملا کہ وہ انھیں سننا نہیں چاہتے، بلکہ ان کے ذریعے اپنے عقائد کی سر بلندی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مخالف عقائد کا ابطال ہو، ان کی تذلیل ہو۔ جو مخالف عقائد والے ان کی آمد کے خلاف ہیں، وہ انھیں اس لیے نہیں مسترد کر رہے ہیں کہ وہ ان کے عقائد کو کسی نئی اور بڑی دلیل کے ساتھ غلط قرار دیں گے۔ بلکہ اس لیے کہ ان کی آمد سے مقامی سطح پر جاری مسلکی چپقلش کو مزید ہوا ملے گی، اور ان کی تذلیل کا نیا موقع تخلیق ہوگا۔

ہر دو طرف کے لوگ یہ جانتے ہیں کہ نائیک کے پاس کوئی نئی دلیل نہیں ہے۔ وہ در حقیقت دلیل کا آدمی ہے ہی نہیں، وہ حوالہ جات کا آدمی ہے۔ اس لیے جہاں دلیل ’تخلیق‘ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں حوالہ غیر متعلقہ ہو جاتا ہے۔ چناں چہ ایسے کئی معاملات ہیں جہاں ذاکر نائیک کے غیر متعلقہ حوالہ جات مضحکہ خیز حد تک صورت حال کو خراب کر دیتے ہیں، اور مذہبی منافرت کو ہوا ملتی ہے۔

- Advertisement -

اب اس سارے پس منظر کو دیکھیں تو ایک اہم نکتہ سامنے آتا ہے۔ یہ افراد اپنی دینی تربیت میں تو جیسے ہوں گے، ہوں گے؛ ان کی ثقافتی تربیت نہیں ہو سکی ہے۔ جدید دنیا میں ملازمین کو ثقافتی آگاہی کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ثقافت اور سوچ اور فکر والے افراد کے ساتھ بہتر طور پر کام کر سکیں اور کام کے حوالے سے بہتر نتائج حاصل ہو سکیں۔

طلبہ کی ثقافتی تربیت پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ نسل، جنس، مذہب، فکر اور رائے کے اختلاف کی نوعیت سمجھتے ہوئے، مل کر درپیش چینلجز سے نمٹنا سیکھ سکیں۔ ذاکر نائیک کی آمد کا مذکورہ تنازعہ اکثر تنازعات کی طرح ثقافتی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ یعنی ایک دوسرے کے عقائد اور رائے اور خیالات کو بے رحمی سے مسترد کرنا۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ مہمان کی آمد کے ساتھ اس بے رحمی میں اضافے کا بھرپور خدشہ ہے۔
ثقافتی تربیت کی عدم موجودی کے باعث انسان کے سماجی رویوں میں بہتری اور ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔ اور اس تربیت کی مدد سے مختلف لوگوں کے متنوع نقطہ نظر اور پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور ان کو سراہنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے کیوں کہ غلط فہمیوں کا امکان کم سے کم ہو جاتا ہے۔

ایک فریق اور بھی ہے، جو مذہب بے زار ہے، جس کی رائے ہے کہ ذاکر نائیک جیسے مہمان اس ملک سے دور رہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا انھیں پاکستان آنا چاہیے؟ وہ نائن الیون کے بعد امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، اور برطانیہ کے دورے کر چکے ہیں۔ پانچ اور دس سالہ ویزے ملے انھیں۔ 2006 میں ویلز میں بھی ایک قدامت پسند رکن پارلیمنٹ نے ان کی آمد پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن پھر یہ تسلیم کیا گیا کہ ذاکر نائیک مذاہب کے درمیان مماثلت پر بات کرتے ہیں اور غیر متنازعہ افراد میں سے ایک ہیں۔ کسی بھی شخص پر صرف اس لیے پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ اس کی رائے دوسرے لوگوں کو ناگوار لگتی ہے۔ اب برطانیہ اور کینیڈا میں مخصوص گروپس کے دباؤ کی وجہ سے ان پر پابندی عائد ہے۔

اس قضیے کا ایک اہم ترین سوال سیاسی ہے۔ اگلے مہینے کے ابتدائی ہفتے میں ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم کا دورہ پاکستان متوقع ہے، اور انھی دنوں ملائیشیا ہی میں مقیم ذاکر نائیک بھی پاکستان آ رہے ہیں۔ یہ سیاسی گٹھ جوڑ ہی اس قضیے کا بڑا سوال ہے۔ اسے اس پسِ منظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برسوں میں نائیک کو ملائیشیا میں بہت اثر و رسوخ حاصل ہوا ہے، کچھ لوگ اگر ان کی موجودی کو مسلمانوں کے لیے خیر کا باعث سمجھتے ہیں تو کچھ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ملائی مسلم برتری کے کمپلیکس میں اضافہ کیا ہے۔ یوں اگر اعلان نہ بھی کیا جاتا ہے تو انھیں پاکستان میں ایک اسٹیٹ گیسٹ کی حیثیت حاصل ہوگی۔

یہاں مختلف عقائد کے افراد سوشل میڈیا پر نائیک کے آنے پر لڑ رہے ہیں، بہ ظاہر یہ اختلاف اور لڑائی سادہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نائیک کی آمد کا تمام قضیہ ہی ایک ڈسکورس ہے۔ جس میں ایک بار پھر سیاست اور مذہب بغل گیر ہیں۔

(یہ تحریر مصنّف کی ذاتی رائے اور‌ خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے)

Comments

اہم ترین

رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں
رفیع اللہ میاں گزشتہ 20 برسوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، ان دنوں اے آر وائی نیوز سے بہ طور سینئر صحافی منسلک ہیں۔

مزید خبریں