حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ فلسطینیوں کے ان رہنماؤں کی فہرست میں شامل تھے جو دلیری اور شجاعت کے باعث عوام میں بہت مقبول تھے۔
اسماعیل ہنیہ کی ساری زندگی فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے ہی گزری، کبھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا جس میں ان کے قدم ڈگمگائے ہوں۔
حماس رہنماء اسماعیل ہنیہ غزہ کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے، 1980 کی دہائی کے آخر میں حماس شامل ہوگئے، اپنی قائدانہ صلاحیتیوں کے باعث جلد حماس میں ایک اہم مقام حاصل کرلیا اور حماس کے بانی اور روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہوگئے۔
حماس رہنماء اسماعیل ہنیہ نے 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں اسرائیلی جیلوں کی اذیتوں کا بھی سامنا کیا، 2006 کے قانون ساز انتخابات میں حماس کی جیت کے بعد وہ فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کے وزیر اعظم بن گئے تھے، لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد 2007 میں صدر محمود عباس نے ان کو عہدے سے ہٹادیا تھا۔
اسماعیل ہنیہ کو 2017 میں حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کردیا گیا تھا، ساتھ ہی امریکا کی جانب سے اسماعیل ہنیہ کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔
اسماعیل ہنیہ حماس کے ان رہنماؤں میں شامل تھے جن کے پورے خاندان نے فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑی اور قربانیاں دیں، حال ہی میں ایک حملے میں ان کی بہن، 3 بیٹوں اور پوتے سمیت پورے خاندان کو شہادت نصیب ہوئی تھی۔
اسماعیل ہنیہ کا حوصلہ حماس کے کارکنوں کے لیے مشعلِ راہ تھا۔ اُن کا اپنی تقریروں میں بھی یہی کہنا تھا کہ جو بھی ہو جائے ثابت قدم رہنا ہی اصل فتح ہے۔
حماس رہنماء اسماعیل ہنیہ فلسطین حماس ہی نہیں بلکہ تمام مسلم دنیا میں اپنی ایک شناخت رکھتے تھے، انہوں نے کبھی بھی فلسطین کی آزادی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا، یہی وجہ تھی کہ اسرائیل کی خواہش تھی کہ انہیں شہید کردیا جائے اور موقع ملتے ہیں اسرائیل نے انہیں شہید کردیا۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران میں شہید کردیا گیا
یاد رہے کہ حماس رہنماء اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران پہنچے تھے، اسرائیلی فورسز کی جانب سے رات تقریباً 2 بجے تہران میں ان کی قیام گاہ پر حملہ کرکے انہیں ان کے محافظ سمیت شہید کردیا گیا۔