غزہ کیلئے امداد لے جانے والی کشتی میڈلین اسرائیل کے قبضے میں ہے، کشتی پر موجود افراد کو اسرائیل نے ڈی پورٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق یورپین پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن نے ڈی پورٹ کے کاغذات پر دستخط کرنے سے ا نکار کیا تو ان کو حراستی مرکز منتقل کردیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق سماجی کارکن گریٹا تھنبرگ کا طبی معائنہ کیا جا رہا ہے، کشتی پر سوار کارکنوں کا تعلق برازیل، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈز، سپین اور ترکی سے ہے۔
فرانسیسی صدر نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کارکنوں کے تحفظ کو یقینی بنائے، سویڈن کی وزارت خارجہ نے کہا کارکنوں کی واپسی کیلئے اسرائیلی حکام سے رابطے میں ہیں۔ پیرس میں کارکنوں کی واپسی کیلئے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
واصح رہے کہ گزشتہ روز فریڈم فلوٹیلا کی کشتی امدادی سامان لے کر غزہ سے ایک سو پچیاسی کلومیٹر دور تھی کہ اسرائیلی فورسز نے کشتی قبضے میں لے لی تھی۔
دوسری جانب اسرائیلی محاصرے کو توڑ کر غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے مختلف تنظیموں کی جانب سے کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔
فریڈم فلوٹیلا کولیشن کی کشتی میڈلین کے بعد تیونس کا امدادی قافلہ اسرائیلی ناکہ بندی کو‘توڑنے’کے لیے غزہ کی طرف روانہ ہو گیا۔
سیکڑوں افراد جن میں بنیادی طور پر تیونس کے باشندے شامل ہیں ان کا ایک بڑا زمینی قافلہ ہے فلسطینی سرزمین پر ”محاصرہ توڑنے”کے لیے ساحلی علاقے کے لیے رواں دواں ہے۔
منتظمین کا کہنا تھا کہ نو بسوں کا قافلہ غزہ میں امداد نہیں لا رہا ہے بلکہ اس کا مقصد اس علاقے کی ناکہ بندی کو توڑ کر ایک ”علامتی عمل”کرنا ہے جسے اقوام متحدہ نے ”زمین کا سب سے غذائی قلت کا مقام”قرار دیا ہے۔
کارکن جواہر چنہ نے کہا کہ ”سمود”قافلہ، جس کا عربی میں مطلب ”ثابت قدمی”ہے اس میں ڈاکٹر شامل ہیں اور اس کا مقصد جنوبی غزہ کے شہر رفح میں ”ہفتے کے آخر تک”پہنچنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ لیبیا اور مصر سے گزرے گا حالانکہ قاہرہ نے ابھی تک گزرنے کے اجازت نامے فراہم نہیں کیے ہیں۔
اسرائیل کی جوہری تنصیبات سے متعلق حساس دستاویزات ایران کے ہاتھ لگ گئیں
تیونس کوآرڈینیشن آف جوائنٹ ایکشن فار فلسطین کے ترجمان نے کہا کہ ہم تقریباً 1,000 افراد ہیں اور راستے میں ہمارے ساتھ مزید لوگ شامل ہوں گے۔