غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور بے گناہ شہریوں کا قتل عام اسرائیلی فوجیوں کو نفسیاتی طور پر شدید متاثر کررہا ہے، درجنوں اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں کی نسل کشی کا اعتراف کرتے ہوئے لڑنے سے انکار کردیا۔
درجنوں اسرائیلی فوجیوں کا غزہ میں شہریوں کے خلاف جنگی جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ہم اس ظلم کا حصہ رہے ہیں۔
اسرائیلی کے 7 ایسے فوجی جنہوں نے غزہ میں لڑائی جاری رکھنے سے انکار کیا ہے، انہوں نے اے پی کو بتایا کہ ہم نے فلسطینیوں کو بے دریغ قتل کیا اور ان کے گھروں کو تباہ کیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 200 فوجیوں نے اپنی حکومت کو ایک دستخط شدہ خط ارسال کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت جنگ بندی کو یقینی نہیں بناتی تو وہ لڑائی بند کردیں گے۔
رپورٹ کے مطابق خدمت سے انکار کرنے والے فوجیوں کی تحریک (Yesh Gvulیش گیوُل کے ترجمان اشائی مینوخن نے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے 80 سے زیادہ فوجیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں جو غزہ میں لڑنے سے انکار کر رہے ہیں اور سیکڑوں مزید ایسے فوجی ہیں جو اسی طرح محسوس کرتے ہیں لیکن خاموش ہیں۔
اسرائیلی آرمڈ کور کے ایک افسر یوتام ویلک نے بتایا کہ غزہ میں اسرائیلی کنٹرول والے "بفر زون” میں کسی بھی غیر مجاز شخص کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے کم از کم 12 افراد کو قتل کیا لیکن ان بے گناہ نوجوان کے قتل کا منظر ہمارے دماغ سے نکل نہیں پایا۔ یوتام ویلک ان فوجیوں میں شامل ہیں جو 15 ماہ سے جاری اس تنازع کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور مزید لڑنے سے انکار کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی قانونی تنظیمیں غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کو نسل کشی اور جنگی جرائم سے تعبیر کرتی ہیں، اسرائیلی فوجیوں کے یہ حالیہ اعترافات اسرائیل کی پرتشدد پالیسیوں کو بےنقاب کر رہے ہیں۔