ایک ملک ایسا تھا، جس کا ہر باسی چور تھا۔ اس کا ہر باسی، رات میں تالا شکن اوزار اور اندھے شیشے والی لالٹین لیے گھر سے نکلتا اور اپنے کسی ہمسائے کے گھر میں نقب لگاتا۔ وہ جب پَو پھٹتے سمے، لُوٹا ہوا مال لیے اپنے گھر لوٹتا تو اسے پتہ چلتا کہ اس کا اپنا گھر لُٹ چکا ہے۔
یوں سب ایک دوسرے سے جھگڑے بغیر سکون سے رہ رہے تھے۔ کسی کو بھی برا نہ لگتا کہ اس نے ایک بار دوسرے کو لوٹ لیا ہے۔ ایک سے دوسرا لُٹتا، دوسرے سے تیسرا، تیسرے سے چوتھا….لُوٹ کا یہ سلسلہ چلتا رہتا، یہاں تک کہ آخری بندہ پھر سے پہلے بندے کو لوٹنا شروع کر دیتا۔
اِس ملک کا سارا کاروبار فریب پر مبنی تھا، چاہے بندہ خریدنے والا تھا یا پھر بیچنے والا۔ اس ملک کی حکومت بھی مجرموں کا ایسا دَل تھا، جو بنا ہی اس لیے تھا کہ لوگوں کا مال ہتھیا سکے، جبکہ لوگ تھے کہ سارا وقت کوشاں رہتے کہ حکومتی دَل کو دغا دے سکیں۔ اس ملک میں سب کی زندگی کسی مشکل کا سامنا کیے بغیر گزر رہی تھی اور اس کے باسی نہ امیر تھے اور نہ ہی غریب۔
پھر ایک دن، نجانے کیسے کیوں اور کہاں سے، ایک ایماندار شخص اس دیس میں آیا۔ وہ، بجائے اس کے، کہ بوری اور لالٹین لیے نقب زنی کے لیے نکلتا، گھر میں ہی رہتا، سگریٹ پھونکتا اور قصے کہانیاں پڑھتا رہتا۔ جب چور آتے، اس کے گھر میں روشنی دیکھتے تو لوٹ جاتے۔ یہ معاملہ دیر تک نہ چل سکا۔
ایماندار آدمی کو یہ بتا دیا گیا: ”یہ تو ٹھیک ہے، تم بیشک تن آسانی سے رہو لیکن تمہیں دوسروں کے کام میں حارج ہونے کا کوئی حق نہیں۔ تمہاری گھر میں گزاری ہر رات کا مطلب ہے کہ ایک گھر میں فاقہ رہے۔“
ایماندار اپنے دفاع میں کچھ نہ کہہ سکا۔۔۔ اور اس نے بھی صبح تک اپنی راتیں، گھر سے باہر گزارنی شروع کر دیں۔ وہ، لیکن، خود کو چوری کرنے پر راضی نہ کر سکا۔ بات صرف اتنی تھی کہ وہ ایک ایماندار شخص تھا۔ وہ پُل پر جا کھڑا ہوتا اور نیچے بہتے پانی کو تَکتا رہتا۔ دن چڑھنے پر جب وہ گھر لوٹتا تو اسے پتا چلتا کہ اس کا گھر لُٹ چکا ہے۔
ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ ایماندار شخص کنگال ہو گیا، اس کے گھر سے سارا سامان جاتا رہا اور اس کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ بچا۔ وہ کسی دوسرے کو قصوروار بھی نہ ٹھہرا سکا کیونکہ قصور تو خود اس کا اپنا تھا۔ اس کی ایمانداری ہی اصل وجہ تھی، جس نے اس ملک کے سارے نظام کی ترتیب توڑ اور توازن بگاڑ دیا تھا۔ وہ لُٹتا رہا لیکن اس نے خود کسی دوسرے کو نہ لُوٹا۔ یہ سبب تھا کہ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا کہ جب وہ اپنے گھر لوٹتا تو اس کا مال و متاع محفوظ ہوتا جبکہ اس کے گھر ایماندار بندے نے رات میں صفائی کرنی ہوتی تھی۔ جلد ہی اُن لوگوں نے خود کو دوسروں کے مقابلے میں امیر پایا، جن کے گھر لٹنے سے بچ گئے تھے۔ نتیجتاً اُن کا من نہ کیا کہ وہ چوری کریں اور وہ جو ایماندار شخص کے گھر چوری کرنے جاتے، وہ خالی ہاتھ لوٹتے اور غریب ہوتے گئے کہ اس کے گھر کچھ بھی نہ بچا تھا۔
اس دوران یہ ہوا کہ جو امیر ہو گئے تھے، انہوں نے بھی ایماندار شخص کی طرح پُل پر جانا اور نیچے بہتے پانی کو تکنا شروع کر دیا اور اِسے اپنی عادت بنا لیا۔ ان کی اس حرکت نے صورت حال میں مزید الجھاؤ پیدا کر دیا کیونکہ مزید لوگ امیر ہو رہے تھے اور بہت سے دوسرے غریب سے غریب تر۔ امیروں کو لگا کہ اگر وہ یونہی پُل پر کھڑے راتیں بِتاتے رہے تو انہوں نے بھی غریب ہو جانا تھا۔ انہوں نے سوچا: ’کیوں نہ ہم کچھ غریبوں کو پیسے دیں کہ وہ ہمارے لیے چوری کرنے جائیں؟‘
مُک مکا کیے گئے، معاوضے اور حصے طے کیے گئے۔ اس میں بھی ایک دوسرے کو داؤ لگائے گئے کیونکہ لوگ تو ابھی بھی چور تھے۔ نتیجہ بہرحال یہی نکلا کہ امیر مزید امیر ہوتے گئے اور غریب مزید غریب۔
امیروں میں سے کئی اتنے امیر ہو گئے کہ نہ تو انہیں چوری کرنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی چوری کرانے کے لیے دوسروں کو معاوضہ دینے کی، لیکن یہ خطرہ موجود تھا کہ اگر وہ چوری سے تائب ہو جائیں تو غربت ان کا مقدر ہوتی، غریبوں کو بھی اس بات کا پتہ تھا۔ انہوں نے، چنانچہ، غریب ترین لوگوں کو، دیگر غریبوں سے اپنے مال و متاع کی حفاظت کے واسطے، رکھوالی کے لیے رکھ لیا۔ پولیس کے جتھے کھڑے ہوئے اور بندی خانے بننے لگے۔
یہ سب ہوا اور پھر ایماندار شخص کی آمد کے چند سال بعد ہی کوئی بھی چوری کرنے یا لُٹ جانے پر بات نہ کرتا، بات ہوتی تو بس اتنی کہ وہ کتنے امیر یا غریب تھے، یہ الگ بات ہے کہ وہ اب بھی چور ہی تھے۔
وہاں بس ایک ہی ایماندار آدمی تھا، جو جلد ہی فاقہ کشی سے مر گیا تھا۔
(اطالوی ادیب ایتالو کیلوینو کا افسانہ جس کے مترجم قیصر نذیر خاورؔ ہیں)