منگل, مئی 6, 2025
اشتہار

زلیخا: جامی کی مثنوی نے حسن و عشق کو غیر فانی بنا دیا

اشتہار

حیرت انگیز

فارسی دنیائے حسن و عشق میں زلیخا کو جو شہرتِ عام حاصل ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں۔ اس کی زندگی حسن و عشق کی ایک بے نظیر اور دلآویز داستان ہے۔ ایک افسرِ تاج و تخت کے محل میں پیدا ہوئی، ناز و نعمت میں پرورش پائی اور بہارِ عمر آتے ہی قیدِ عشق میں مبتلا ہوگئی۔ پھر مدت العمر اس نے مصیبتیں جھیلیں۔ شہزادی سے فقیرن بنی۔ سب کچھ راہِ عشق میں لٹا دیا۔ مگر باوجود متواتر ناکامیوں کے راہِ الفت سے نہ ٹلی۔

اگرچہ بعض اوقات معشوق کی سرد مہری اور ابنائے زمانہ کی طعنہ زنیوں سے مجبور ہو کر اس نے اپنے معشوق پر سختیاں بھی روا رکھیں مگر یہ بھی انتہائے محبت کا ایک جلوہ تھا۔ اس بسملِ خنجرِ عشق کے نام کو فارسی کے زندہ جاوید شاعر جامی نے غیر فانی بنا دیا ہے۔ اس کے حسن کی تعریف میں یوں رطب اللسان ہے، عین عنفوان شباب میں عشق کی گھاتیں اس پر ہونے لگتی ہیں۔ مگر یہ عشق معشوق کے دیدار سے نہیں پیدا ہوتا بلکہ ایک مافوق العادت طریقے پر۔ وہ خواب راحت سے ہم آغوش تھی کہ یکایک، اس جوان رعنا کو خواب میں دیکھتے ہی زلیخا پر اس کی رعنائی کا جادو چل گیا۔ یہ چلن یہ سوز اندرون خود برداشت کرتی ہے۔ اور اصحاب سے حرف حکایت زبان پر نہیں لاتی۔ سکھیوں سہیلیوں سے ہنستی بولتی ہے مگر راز دل کسی نے نہیں کہتی، کبھی کبھی جب اس جلن سے بے چین ہو جاتی ہے تو تصور یار سے یوں باتیں کرتی ہے کہ زلیخا زبان سے کچھ نہیں کہتی۔ مگر اس کی خونبار آنکھیں اور زرد رخسار آخر افشائے راز کر ہی دیتے ہیں۔ گل سرخ سا چہرہ لالہ زرد ہو جاتا ہے۔ سرد آہیں بھرتی ہے۔

کنیزیں آپس میں سرگوشیاں کرنے لگتی ہیں۔ کوئی کہتی ہے آسیب ہے۔ کوئی کہتی ہے جادو ہے۔ ان کنیزوں میں زلیخا کی ایک دایہ بھی ہے۔ عشق کی داستانوں میں ایسی عورتیں اکثر آتی ہیں مگر ان میں شاید ہی کسی کی تعریف ایسی خوبصورتی سے چند شعروں میں ادا کی گئی ہو۔ زلیخا دایہ مہربان سے رو رو کر اپنی رام کہانی کہہ سناتی ہے۔ کچھ دنوں بعد زلیخا ایک روز بستر غم پر پڑی ہوئی اپنے دل سے فریاد کر رہی ہے کہ اسے دوبارہ جمال یار کا دیدار ہوتا ہے۔ وہ اسے خواب میں دیکھتے ہی اس کے قدموں پر گر پڑتی ہے۔ اور اپنی بے قراری کا اظہار کرنے لگتی ہے۔ تصورِ یار کی یہ دلسوزی زلیخا کی آتش عشق کو اور بھی بھڑکا دیتی ہے۔ کچھ دنوں اور اسی تکلیف میں گزرتے ہیں۔ اور تیسری بار پھر اسے معشوق کے جمال جہاں سوز کا نظارہ ہوتا ہے۔ نشوونما عشق کی، یہ نوعیت محبت کی داستانوں میں بالکل نرالی ہے۔ زلیخا پھر تصور یار کے پیرں پر گر پڑتی ہے۔ مگر دوسری بار کی طرح اس خیالی معشوق نے اب کی اس گریہ وزاری پر دلداری و درد مندی کا اظہار نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہہ کر، ’’عزیز مصرم و مصرم مقام است‘‘ غائب ہوگیا۔ شاعر نے یہاں پر ٹھوکر کھائی ہے۔ جب عشق کی صورت بالکل الہامی اور وہبی ہے تو لازم تھا کہ تصور یار کا یہ پتہ صحیح ہوتا مگر واقعات اس کے خلاف ہیں۔ کیونکہ حضرت یوسف عزیز مصر نہ تھے۔ تاہم زلیخا کو بہت تسکین ہوگئی۔ جب معشوق کا نشان مل گیا تو اسے ڈھونڈھ نکالنا کیا مشکل تھا۔ آگے مصنف نے بادشاہوں کی جانب سے زلیخا کے لیے پیغام کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی حالت بتائی ہے اور لکھتے ہیں: ناچار شاہ طیموسؔ نے اپنی طرف سے عزیز مصر کے پاس پیغام بھیجا۔ عزیز مصر فرط مسرت سے پھولا نہ سمایا۔ قصہ مختصر یہ کہ زلیخا بڑے تزک و احتشام سے مصر کی طرف چلی۔ حضرت جامیؔ نے اس جلوس کے شان و شکوہ کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا ہے۔ اس فاقہ مستی اور ادبار کے زمانے میں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ زلیخا خوش خوش چلی جاتی تھی کہ اب عیش و کامرانی کے دن آئے، مگر اسے کیا خبر تھی کہ فلک فسوں ساز اسے سبز باغ دکھا رہا ہے۔ عزیز مصر پایہ تخت سے اس کے استقبال کے لئے آیا ہوا تھا۔ زلیخا نے خیمہ کے شگاف سے اسے دیکھا۔ مگر (یہ تو وہ صورت نہ تھی)‌ اسی طرح پیچ و تاب کھا کر اس نے بہت دیر تک اشک حسرت بہایا اور بارگاہ خدا میں التجا کہ میری عزت و آبرو کا تو نگہبان ہے۔ خدا کی درگاہ میں اس کی دعا قبول ہوئی اور غیب نے اس کے دل کو بہت تقویت بخشی۔ اب وہ عزیر مصر کی بیگم تھی۔ اس کی محل سرا رشک فردوس تھی اور اس کا تخت مرصع تھا مگر جب دل پر بارِ غم ہو تو ان ظاہری آرائشوں سے کیا سکھ! اس طریق سے زلیخا نے عزیز مصر کے ساتھ عرصہ دراز تک عمر بسر کی۔ غالباً بعد کو اس کا راز نہفتہ عزیز مصر پر بھی روشن ہوگیا تھا۔ مگر زلیخا اسے چھپانے کی ہمیشہ کوشش کرتی رہی، آخر اس کا عشق صادق دیکھ کر خداوند کریم کو اس پر رحم آیا۔ زمانہ نیرنگ ساز نے چارہ سازی کی۔ حضرت یوسف کو ان کے بدخواہ بھائیوں نے مارے حسد کے کنوئیں میں ڈال دیا۔ یہ یوسف ہی تھے جن کے جمال جہاں آرا کا نظارہ زلیخا کو خواب میں ہوا تھا۔ حسن اتفاق سے چند تاجروں نے یوسف کو کنوئیں سے زندہ نکال لیا اور انہیں غلام بنا کر فروخت کرنے کے لئے مصر میں لائے۔

جب سے حضرت یوسف کنوئیں میں گرے تھے زلیخا کو ان سے دلی لگاؤ ہونے کے باعث کسی پہلو چین نہ تھا۔ ایک روز وہ تفریح طبع کے لئے شہر کے قرب ایک جنگل میں گئی۔ اور عیش کا بہت سامان لے گئی۔ مگر وہاں بھی اس کی طبیعت نہ لگی۔ محل سرا کی طرف واپس آرہی تھی کہ راستے میں شاہی محل سرا کے مقابل ایک انبوہ کثیر جمع دیکھا۔ یوسف کی تعریف ہرکس و ناکس کی زبان پر تھی۔ لوگ ان کے عشق میں دیوانہ ہو رہے تھے۔ زلیخا نے بھی اپنا ہاتھی ٹھہرایا۔ اور جونہی یوسف پر اس کی نگاہ پڑی اس کی نگاہوں سے ایک پردہ سا ہٹ گیا اور بے اختیار دل سے ایک آہ سرد نکل آئی۔ اور غشی کی حالت عارض ہوگئی۔ کنیزوں نے یہ حالت دیکھی تو ہاتھی کو تیزی سے خلوت گاہ میں لائیں۔

ادھر مصریوں نے یوسف کی خریداری میں اپنی قدردانیوں کا ثبوت دینا شروع کیا جو آتا تھا مول بڑھاتا تھا۔ زلیخا نے خواب میں جو صورت دیکھی تھی وہ بچہ یوسف کی نہ تھی۔ بلکہ یوسف جوان رعنا کی۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ یوسف پر درجہ نبوت رکھنے کے باعث زمانے کا کچھ اثر نہ ہوا ہو۔ زلیخا گوہر مراد پاکر شاد کام ہوگئی۔ اور برائے چندے اس کی زندگی بڑے لطف سے گزری۔ مگر چونکہ یوسف پیغمبر تھے۔ اور پیغمبروں کے لئے گلہ بانی مخصوص مشغلہ ہے۔ اس عیش و طرب میں ان کی دل بستگی نہ ہوئی۔

یہاں اس تحریر کے مصنّف نے عزیز مصر کی جانب سے یوسف کو خرید لینے اور پھر زلیخا کی اس لڑکے کے متعلق چند پیش رفتوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں اسے ناکامی ہوئی اور پھر وہ بتاتے ہیں کہ مگر عشق نے زلیخا کو بالکل اندھا کر دیا تھا۔ جب تجربہ سے ثابت ہوگیا کہ ان چھوٹی چھوٹی چالوں سے کام نہ چلے گا تو دایہ نے ایک بڑی چال چلی۔ مال و دولت کی کمی تھی ہی نہیں۔ ایک بڑی عالیشان عمارت بنوائی گئی جس میں سات حصے تھے زلیخا نے اپنے تئیں بھی خوب دل کھول کر سجایا اور جا کر پہلے طبق میں بیٹھی۔ یوسف بھی بلائے گئے۔ انہیں دیکھتے ہی زلیخا بے قرار ہوگئی۔ صبر ہاتھ سے جاتا رہا۔ یوسف کا ہاتھ ایک انداز سے پکڑ کر ادھرادھر کی سیر کرانے لگی۔ منزل ہفتم میں پہنچ کر زلیخا نے منت و سماجت کرتے کرتے گویا کلیجہ نکال کر رکھ دیا ہے مگر یوسف کا دل نہ پسیجا۔ یوسف اس ہفت خانہ سے نکل ہی رہے تھے کہ عزیز مصر آتے دکھائی دیے۔ انہوں نے یوسف کا ہاتھ فرط شفقت سے پکڑ لیا۔ اور پھر مکان میں داخل ہوئے۔ زلیخا نے جب یوسف کو عزیز کے ساتھ دیکھا تو کبھی اس نے میری شکایت کی ہو۔ فوراً تریا چرتر کھیلی۔ بولی کہ آج میں اس کمرے میں سوئی تھی تو یہ غلام جسے میں نے اپنی فرزندی میں لیا ہے، دبے پاؤں میری خواب گاہ میں آیا اور مری چادر عصمت چاک کیا چاہتا تھا۔ اتنے میں میں جاگ پڑی۔ اور یہ بھاگ نکلا۔

اور حضرت یوسف قید خانے میں داخل ہوئے۔ یہاں درگاہ خدا میں ان کی فریاد یہاں تک مقبول ہوئی کہ زلیخا کی پیش خدمتوں میں سے ایک کے شیر خوار بچے نے یوسف کی بے گناہی کا اعتراف کیا۔ عزیز مصر کو اب شک کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ اس نے یوسف کو رہا کر دیا اور زلیخا معتوب ہوئی۔ مگر جب یہ قصہ عام ہو گیا اور لوگ زلیخا کو مطعون کرنے لگے تو اس نے اپنے شوہر سے کہا میں اس غلام کے پیچھے بدنام ہو رہی ہوں۔ آپ اسے میری نظروں سے دور کر دیجئے۔ چنانچہ عزیز نے یوسف کو دوبارہ قید کیا۔ مگر فراق یار کا صدمہ برداشت نہ ہوسکا تو چھپ کر دایہ کے ساتھ قید خانہ میں جاتی اور یوسف کو دیکھ آتی۔ ادھر یوسف نے جیل خانے میں خوابوں کی تعبیر کہنے میں شہرت حاصل کی۔ خواب سنتے ہی اس کی سچی تعبیر کر دیتے۔ انہیں دنوں بادشاہ مصر نے خواب دیکھا تھا کہ میرے مکان میں پہلے سات فربہ گائیں آئیں۔ ان کے بعد سات لاغر گائیں آئیں اور ان فربہ گایوں کو گندم خشک کی طرح کھا گئیں۔ اس خواب کی تعبیر کسی سے نہ ہوئی تھی۔ یوسف کی تعبیر گوئی کی شہرت بادشاہ تک پہنچ چکی تھی۔ بادشاہ نے اسے دربار میں طلب کیا اور یوسف نے تعبیر کی پہلے مصر میں سات برسوں تک فصل پیدا ہوگی۔ لوگ فارغ البال رہیں گے۔ اس کے بعد سات سال قحط اور گرانی کے آئیں گے۔ اور اس زمانے میں رعایا کو سخت تکلیف کا سامنا ہوگا۔ بادشاہ اس تعبیر سے بہت خوش ہوا اور اسی وقت سے یوسف اس کے منظور نظر ہوگئے۔ عزت اور رتبہ بڑھنے لگا۔ مگر جوں جوں ان کا رتبہ بڑھتا گیا عزیز مصر کا رتبہ کم ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اسی غم میں وہ راہی عدم ہو گیا۔ عزیز مصر کے مرتے ہی زلیخا کے بھی برے دن آئے۔ آخر ایک روز یاس و ناکامی سے جھلا کر زلیخا نے اپنے معبود کو چور چور کر ڈالا اور اسی عالم خود رفتگی میں حضرت یوسف کے پاس پہنچی۔ یوسف نے متحیر ہوکر نام و نشان پوچھا۔ زلیخا کو پہچان نہ سکے۔ قصہ مختصر یہ کہ ان کی دعاؤں نے زلیخا کو دوبارہ حسن و شباب عطا کیا اور تب خدا کی اجازت سے انہوں نے زلیخا سے نکاح کر لیا۔ یہ ہے زلیخا کا مشہور و معروف قصہ۔

(اردو کے ممتاز افسانہ نگار پریم چند کے ایک مضمون سے اقتباسات)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں