جمعہ, نومبر 15, 2024
اشتہار

احمد خان کھرل: وہ باغی جس نے انگریز افسر کو گھوڑے دینے سے انکار کیا

اشتہار

حیرت انگیز

احمد خان کھرل کو ہندوستان کی تاریخ میں ایک مجاہد اور شہید کے طور پر یاد کیا جاتا ہے انھیں ادائیگیِ نماز کے دوران گولیاں مار دی گئی تھیں۔ یہ 21 ستمبر 1857ء کی بات ہے جب انگریز اور سکھ سپاہیوں پر مشتمل فوجی دستے نے احمد خان کھرل اور ان کے ساتھیوں کو گشکوریاں کے نزدیک نورے دی ڈل کے مقام پر گھیر لیا تھا۔ احمد خان اور ان کے ساتھی کئی روز سے انگریز فوج سے بھڑے ہوئے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ میرٹھ اور دلّی میں مقامی سپاہیوں کی انگریزوں کے خلاف جاری بغاوت کو کچلنے کے لیے گوگیرہ میں تعینات اُس وقت کے ایڈیشنل اسٹنٹ کمشنر لیوپولڈ فٹز جیرالڈ برکلے نے جب قبائلی سرداروں سے گھوڑے اور جوان طلب کیے تو رائے احمد خان کھرل نے انھیں سخت لہجے میں جواب دیا کہ ’ہم اپنا گھوڑا، عورت اور زمین کسی کے حوالے نہیں کرتے۔‘ انگریز افسر کو یہ بات ناگوار گزری اور اسے قبائلی سردار کی جانب سے بغاوت تصوّر کیا گیا جس کے بعد لڑائی کا آغاز ہوا۔

بغاوت سے متعلق انگریز انتظامیہ کی رپورٹوں پر مبنی دستاویزات سے ظاہر ہے کہ یہ بغاوت کمالیہ، پنڈی شیخ موسیٰ، سید والا، ہڑپہ، چیچہ وطنی، تلمبہ، سرائے سدھو، شور کوٹ، جملیرہ اور پاک پتن کے علاقوں تک پھیل گئی تھی اور انگریزوں کو جھنگ، لیہ، گوجرانوالا اور لاہور سے کئی بار کمک ملنے کے باوجود مزاحمت اس وقت تک ختم نہیں ہوئی جب تک رائے احمد خان کھرل کو قتل نہ کر دیا گیا۔

- Advertisement -

رائے احمد خان کھرل کا سنہ پیدائش 1776ء بتایا جاتا ہے۔ وہ رائے نتھو خاں کی اولاد تھے۔ احمد خان کھرل جنگِ آزادی کے دوران، نیلی بار کے علاقے میں انگریز راج کے خلاف گوگیرہ بغاوت کی قیادت کررہے تھے۔ رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گاؤں جھامرہ سے تھا اور یہ علاقہ اب ضلع فیصل آباد میں شامل ہے۔

1857ء کی جنگِ آزادی جسے غدر کا نام دیا گیا، کے دوران جب دلّی میں قتل و غارت ہوئی اور انگریز اس بغاوت کو کسی حد تک کچلنے میں کام یاب ہوگئے تو اس نے پنجاب میں زور پکڑا۔ ہر جگہ انگریزوں کو بغاوت کا شور سنائی دے رہا تھا اور انگریز افسروں پر اسے کچلنے کے لیے دباؤ تھا۔ اس بغاوت کو مقامی سرداروں کی مدد اور ان سے کمک حاصل کیے بغیر ختم کرنا ممکن نہیں تھا لیکن رائے کھرل کے جواب پر برکلے کو شدید مایوسی ہوئی۔ اس نے کھرل اور دیگر قبائل کے لوگوں کی پکڑ دھکڑ اور قید کے علاوہ مجاہدوں کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا جس پر احمد خان کھرل نے برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں سے لڑائی کا آغاز کردیا۔ ایک رات انھوں نے گوگیرہ کی جیل پر دھاوا بول دیا اور اپنے ساتھیوں کو قید سے آزاد کروانے میں کام یاب ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ اس لڑائی میں تین سو سے زائد انگریز فوج کے سپاہی بھی مارے گئے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے برکلے نے احمد خان کھرل کے قریبی رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا اور گھر کی بہو بیٹیوں کو بھی حراست میں لیا جس کے بعد رائے احمد خان کھرل گرفتاری دینے پر مجبور ہوگئے، مگر فتیانہ، جاٹوں اور وٹوؤں کی بڑھتی ہوئی سخت مزاحمت کے خطرے کے پیشِ نظر احمد خان کو گوگیرہ بنگلہ کے علاقے تک نقل و حمل محدود رکھنے کا حکم دے کر چھوڑ دیا گیا۔ مگر احمد خان کھرل انگریزوں کے خلاف لڑائی کے لیے نکل آئے اور کئی روزہ لڑائی کے بعد 21 ستمبر 1857ء کو وہ انگریزوں کے ہاتھ لگ گئے اور برکلے کے حکم پر گولی مار دی گئی۔

دریائے راوی پار کر کے دائیں ہاتھ کی طرف راستے پر تقریباََ پانچ کلومیٹر کی مسافت طے کی جائے تو پناہ دا کُھوہ سے کچھ آگے احمد خان کھرل کا مقبرہ موجود ہے۔ تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ انگریز افسر برکلے نے احمد خان کا سَر قلم کروا کر نیزے پر رکھا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ مقامی منتظم ایلفنسٹن نے رپورٹ کیا کہ ’اس مہم میں ہمیں شدید نقصان ہوا لیکن باغیوں کی ناقابل تلافی تباہی پر اس کا انجام ہوا۔ احمد خان تحریک کے مرکزی اکسانے والے تھے۔ پچھلی بغاوتوں میں کام یابی کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے تھے، اور راوی کے قبائل پر ان کا اثر و رسوخ بے حد تھا۔‘

انگریز افسر برکلے احمد خان کی شہادت کو اپنی بڑی فتح سمجھا تھا اور اس نے خیال کیا کہ اب مزاحمت ختم ہو جائے گی۔ لیکن فتیانوں نے اسے یہ دن دیکھنے نہ دیا اور ایک مقام پر حملہ کر کے برکلے کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اس کا سَر بھی تن سے جدا کر دیا۔ اس انگریز افسر کو بنگلہ گوگیرہ سے بخشو جندراکا جاتی سڑک پر ایک قبرستان میں دفنایا گیا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں