تحریر: عارف عزیز
جون ایلیا کا آخری شعری مجموعہ ”کیوں“ کے نام سے منظرِ عام پر آگیا ہے اور یہ ان کی پہلی کتاب ہے جس کی تقریبِ رونمائی بھی منعقد کی گئی۔ جون ایلیا کا یہ تازہ شعری مجموعہ بھی خالد احمد انصاری کی محنت اور لگن کے طفیل ہم تک پہنچا ہے۔ انھیں اردو ادب اور بالخصوص جون ایلیائی لہر میں بہنے والے نوجوانوں کا محسن کہا جاسکتا ہے۔
کراچی کے ایک ہوٹل میں تقریب کے لیے بطور میزبان خالد انصاری نے چیدہ و چنیدہ شخصیات کو دعوت دی تھی۔ ”ایک شام جون ایلیا کے نام“ سے اس تقریب میں میزبان اور مؤلفِ کتاب خالد انصاری نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ہی میرا کام اب ختم ہوا۔ شاید ایسا ہی ہے، لیکن اردو دنیا میں خالد انصاری کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
جون ایلیا اردو کے مقبول ترین شاعر ہیں۔ بالخصوص نوجوانوں کی بڑی تعداد فیس بک اور واٹس ایپ پر جون ایلیا کا کلام پڑھتی ہے، ان کے اشعار شیئر کیے جاتے ہیں اور ان کی مشاعرہ پڑھتے ہوئے ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں۔ معروف شاعر اور گیت نگار مجروح سلطان پوری نے جون ایلیا کو شاعروں کا شاعر کہا تھا اور آج جون ایلیا سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ مگر ان کے لیے یہ دیوانگی پہلے بھی تھی۔ جب آج کی طرح شعر اور شاعر تک رسائی ایک ”کلک“ کی بدولت ممکن نہ تھی۔ اس وقت بھی کوئی جون ایلیا کو پاتا تو انہی کا ہو رہتا۔ جون ایلیا کی ہیئت کذائی، ان کا انداز اور عالمانہ گفتگو ایسی تھی کہ لوگ مرعوب اور سماعت ان کی اسیر ہو جاتی۔ دورانِ گفتگو کسی شعر سے بات نکلتی اور شاعر تک پہنچتی تو کیا کیا باتیں کرتے، کائنات یا دل کی واردات کو موضوع بنایا جاتا تو فکر کے نئے زوایے سامنے لاتے۔
خالد انصاری 1992ء میں پہلی مرتبہ جون ایلیا سے ملے۔ ان کی لکھائی جون ایلیا کو اچھی لگی تو اپنی بیاض لکھنے کا کام سونپ دیا۔ اور پھر خالد انصاری چند سال تک ان سے ملاقات نہ کرسکے۔ اس عرصہ میں شہر کے کئی خوش باش بل کھاتی سڑکوں سے گزرتے ہوئے، چورنگیاں گھوم کر شام ہوئے جون ایلیا کے پاس پہنچتے رہے۔ بھائی جون نے کسی کو اپنے دل محلّے میں جگہ دے دی تو کوئی یوں خوش رہا کہ
؎ وہ مجھے دیکھ کے پہچان لیا کرتے تھے
وہ سب کے بھائی جون بنے رہے لیکن انھیں کسی سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ انھیں تو ایک نہ آنے والے سے مطلب تھا اور وہ تھے خالد احمد انصاری۔
اور ایک روز خالد احمد انصاری ان کے سامنے کھڑے تھے۔ وہی خالد جس سے جون ایلیا کو مطلب تھا۔ وہ علی کرار نقوی کے گھر سے، جہاں جون ایلیا اقامت پذیر تھے، چند قدم کی مسافت پر ہی رہتے تھے اور اس روز بس ایک گلی سے اٹھ کر جون ایلیا کے گھر آن پڑے تھے۔ بقول خالد احمد انصاری، مجھے اچانک اپنے سامنے پاکر انھوں نے کہا، خالد! تم آئے نہیں ہو، تمھیں بھیجا گیا ہے! اور پھر وہ رونے لگے۔
جون ایلیا کا یہ گمان، گویا ان کا وجدان تھا۔ خالد انصاری بڑے کام کے آدمی نکلے۔ جون ایلیا سے مخلص، اور بے غرض انسان۔
خالد انصاری اب روز ہی جون ایلیا کے پاس جانے لگے۔ جون ایلیا کو انہی دنوں خیال گزرا کہ ان کے اوراقِ پریشاں غائب ہورہے ہیں، ان کی تحریریں کوئی لے جاتا ہے۔ تب، جون ایلیا نے اپنی شاعری (مسوّدے) خالد انصاری کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ اسے اپنے گھر میں رکھیں، جب ضرورت ہوگی تو منگوا لوں گا۔ مگر کچھ عرصہ بعد جون ایلیا کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں خالد انصاری نے جون ایلیا کے اہلِ خانہ کی اجازت سے یہ کلام کتابی شکل میں ہم تک پہنچایا۔
جون ایلیا کے دوسرے شعری مجموعہ ”یعنی“ کو مرتب کرنے کے بعد خالد انصاری نے بہت محنت اور لگن سے کام کر کے گمان، گویا، لیکن، فرنود اور راموز جیسی کتابیں اردو ادب کو سونپ دیں۔ ”کیوں“ وہ آخری کتاب ہے جو بیک وقت پاکستان اور ہندوستان سے شایع ہوئی ہے۔ اور قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ بھارت میں یہ مجموعہ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی میں بھی شایع کیا گیا ہے۔
جون ایلیا کی تخلیقات ہم تک پہنچانے والے خالد انصاری نے اس سے پہلے کسی کتاب کی تقریبِ رونمائی کا اہتمام نہیں کیا تھا۔ جون ایلیا کی کتابیں تو سامنے آتی رہیں، مگر خالد انصاری کم ہی سامنے آئے۔ اس تقریب میں بھی شرمیلے خالد انصاری نے مختصر گفتگو کی۔
”کیوں“ میں جون ایلیا کی غزلیات اور نظمیں ہی نہیں قوالیاں بھی شامل ہیں۔ چند منظوم خطوط اور قطعات بھی ہیں۔ خالد انصاری نے بتایا کہ آخری شعری مجموعہ کے بعد ان کی خواہش ہے کہ ”کُن“ کے نام سے جون ایلیا کا کلیات مرتب کریں جس میں تمام مجموعہ ہائے کلام ہی یکجا نہیں ہوں گے بلکہ اس کی انفرادیت جون ایلیا کے اوّلین شعری مجموعے ”شاید“ کی غزلوں کے وہ اشعار ہوں گے جو اُس وقت کتاب میں شامل نہیں کیے گئے تھے۔ بقول خالد انصاری یہ بھائی جون کی خواہش تھی کہ وہ سب اشعار بھی شایع کیے جائیں۔ اس کے علاوہ فردیاتِ جون ایلیا اور دیگر اصنافِ سخن میں ان کی شعری باقیات ”کُن“ میں جگہ پائیں گی۔
سولہ سال بعد شایع ہونے والے شعری مجموعے ”کیوں“ کو مؤلف نے علی کرار نقوی اور جاوید معنی کے نام کیا ہے۔ اس کتاب کا بیک وقت اجرا پاکستان اور بھارت میں ممکن بنایا گیا۔ خالد انصاری نے بتایا کہ یہ عدیل رضوی کی خصوصی کوشش کے سبب ہوا اور اس کے لیے ”ریختہ“ نے بھی تعاون کیا۔ جون ایلیا کے عاشق عدیل رضوی کا ذکر ہم اگلی سطور میں کرتے ہیں۔
بھائی جون کے بکھرے ہوئے کلام کو سمیٹننے، اور کتابوں کی اشاعت تک اپنے سفر میں خالد انصاری نے اوّلین سنگِ میل گمان کی شکل میں طے کیا تھا۔ اس کا نقشہ انھوں نے اپنی ایک تحریر میں یوں کھینچا ہے، ”2004ء کی ایک سرد شام، ہاتھ میں گمان کا مسودہ تھامے لمبے لمبے قدم اٹھاتا کوریئر کمپنی کے دفتر کی جانب رواں دواں ہوں، مجھے یہ مسوّدہ لاہور ارسال کرنا ہے۔ میں اس خواب کی تعبیر پانے کی تگ و دو میں ہوں جو میں نے برسوں پہلے اپنے دوستوں کے ہم راہ دیکھا تھا۔ خواب، یعنی جون بھائی کا کلام مجموعوں کی صورت اختیار کرے اور دنیا دیکھے کہ جون ایلیا کی شاعری سے متعلق باتیں محض افسانہ نہیں تھیں۔“ خالد انصاری شاعر یا ادیب نہیں، لیکن جون ایلیا کی کتابوں کے مؤلف کی حیثیت سے انھیں ادبی حلقوں میں بڑا احترام حاصل ہے۔
”کیوں“ کی تقریبِ اجرا میں اردو زبان و ادب کی معتبر شخصیت، پاکستان کے مقبول اور کثیر الاشاعت ڈائجسٹ سب رنگ کے مدیر، ناول نگار، اور معروف صحافی شکیل عادہ زادہ نے جون ایلیا سے متعلق اپنی یادیں تازہ کیں۔ شکیل صاحب جون ایلیا کے ایک ہم کار ہی نہیں دیرینہ رفیق رہے ہیں۔ شکیل عادل زادہ نے انھیں بے مثل شاعر قرار دیا۔ ان کا خیال ہے کہ جون صاحب بحیثیت شاعر تو بہت مقبول اور معروف ہیں، لیکن وہ اپنی نثر میں جھلکتے تھے۔ ایک عالم اور فلسفی آدمی کی شاعری کا بہت ذکر ہوتا ہے لیکن وہ ایک بڑے نثر نگار بھی تھے اور ہمیں ان کی نثر بھی ضرور پڑھنا چاہیے۔
عدیل زیدی کا نام بطور میزبان بھی لیا گیا ہے، لیکن انھیں اس تقریب کا ایک مہمانِ خاص جاننا چاہیے۔ امریکا میں مقیم عدیل زیدی کا ایک حوالہ اور تعارف بطور شاعر تو اردو دنیا سے ہے ہی، لیکن وہ ایک ادب نواز شخصیت بھی ہیں۔ اپنے مخصوص انداز اور دل نواز لہجے میں عدیل زیدی نے کہا کہ جون ایلیا افقِ لحد سے پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو چکے ہیں اور کیوں کے اجرا کے بعد جون ایلیا کی آب و تاب میں قابلِ ذکر اضافہ ہو گا۔ عدیل زیدی نے تقریب میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ جون ایلیا ایک شخص کا نہیں ایک شخصیت کا نام ہے۔ ان کا منفرد لہجہ، ان کی شاعری میں گفتگو اور گفتگو میں شاعری، ان کی اپنے آپ کو تباہ کرنے کی ہمّت، اپنے پیاروں سے اور اپنی زمین سے عشق کا والہانہ جذبہ، اپنے تمام احساسات و جذبات کو آسان اور عام فہم میں بیان کرنا، یہ سارے عناصر اگر کبھی دوبارہ یکجا ہوسکے تو شاید جون ایلیا جیسی شخصیت کا ظہورِ ثانی ممکن ہو جائے۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ عدیل رضوی نے جون ایلیا کے اس تازہ مجموعہ کے لیے مالی معاونت بھی کی ہے جو جون ایلیا سے ان کی محبّت کے اظہار کی ایک شکل ہے۔
اس تقریب میں اظہارِ خیال کرنے والوں میں میزبان شخصیات اور صدرِ محفل کے علاوہ عقیل عباس جعفری، وسعت اللہ خان، مومن خان مومن، خرّم سہیل، مسرور پیرزادو، غلام علی (جون) شامل تھے۔
جون ایلیا سے متعلق مضامین کا مجموعہ ”مَیں یا مَیں: جون ایلیا پر تحریریں اور ملاقاتیں“ بھی شاید آپ نے پڑھا ہو۔ آخری شعری مجموعے کے ساتھ بھی ایسی ہی مختصر کتاب بعنوان ”کیوں عام کیا سخن کو“ شایع کی گئی ہے۔ یہ جون ایلیا کی شخصیت پر احباب کی یادوں اور تأثرات پر مشتمل مضامین ہیں۔
کتاب کے سرورق پر اور اندرونی صفحات پر جون ایلیا کی جو تصویریں شایع کی گئی ہیں، وہ اے آئی (artificial intelligence) کا کمال ہیں۔