جمعہ, نومبر 8, 2024
اشتہار

جون ایلیا:‌ اذیّت و آزار کا آدمی

اشتہار

حیرت انگیز

جون ایلیا کو اس دور میں بالخصوص نوجوان نسل کا مقبول شاعر تو کہا ہی جاتا ہے، لیکن وہ بطور شاعر اور نثر نگار بھی اپنے منفرد لب و لہجے اور طرزِ بیان کی وجہ سے اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتے ہیں جون ایلیا اپنے ہی مزاج کے شاعر تھے۔ وہ الفت و کلفت، روٹھنے منانے تک نہیں‌ محدود نہیں رہے بلکہ ان کی خود پسندی اور انا انھیں دُشنام طرازی تک لے جاتی ہے۔

آج جون ایلیا کی برسی ہے جنھیں شاعری میں روایت کا باغی اور بے باک شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ جون ایلیا حسن پرست اور وصالِ یار کے مشتاق تو نظر آتے ہیں، لیکن اپنے اشعار میں وہ زندگی سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ جب یہ بیزاری اُن پر حاوی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے محبوب کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ میر جیسا دماغ تو اُن کو نہیں رہا، لیکن غالب جیسی انا ضرور اُن میں‌ تھی۔ جون ایلیا کہتے ہیں،

حسن سے عرضِ شوق نہ کرنا، حسن کو زک پہنچانا ہے
ہم نے عرضِ شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے

- Advertisement -

ان کی نظم سزا کا یہ بند ملاحظہ کیجیے

میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
اپنی متاعِ ناز لٹا کر مرے لیے
بازارِ التفات میں نادار ہی رہو

جون ایلیا کی شخصیت پر ان کے دوست قمر رضی نے لکھا، "ایک زود رنج مگر بے حد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، اک مرعوب کن شریکِ بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔”

اردو کا یہ مقبول شاعر 2002ء میں آج ہی کے روز یہ دنیا چھوڑ گیا تھا۔ جون ایلیا ایک شاعر اور انشائیہ نگار تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عربی اور فارسی زبان بھی جانتے تھے۔ جون ایلیا زبان و بیان کی باریکیوں اور املا انشا کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں، "جون ایلیا اپنے معاصرین سے نہایت درجہ مختلف اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر یقینا اردو، فارسی عربی شاعری کی چھوٹ پڑ رہی ہے مگر وہ ان کی روایات کا استعمال بھی اتنے انوکھے اور رسیلے انداز میں کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخری نصف میں ہونے والی شاعری میں ان کی آواز نہایت آسانی سے الگ پہچانی جاتی ہے۔”

روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا رد شاید جون ایلیا کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ تو ہوتے ہی تھے، لیکن اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے دلیل و منطق اور تاریخی حوالہ جات سامنے رکھتے۔ تاریخ و فلسفہ، مذہب اور ثقافتی موضوعات پر ان کی خوب نظر تھی۔

جون ایلیا 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اصغر نقوی ان کا نام رکھا گیا لیکن قلمی نام سے شہرت پائی۔ وہ جس گھرانے کے فرد تھے اس میں سب علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن کے مالک اور روشن خیال لوگ تھے۔ جون ایلیا کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانوں کے عالم تھے۔ جون ایلیا کے بھائی سید محمد تقی دانش وَر اور فلسفی مشہور تھے۔ ایک بھائی رئیس امروہوی اردو کے بڑے شاعر اور صحافی گزرے ہیں۔ جون صاحب کے گھر میں علمی و ادبی نشستوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ وہ اس ماحول کے پروردہ تھے جس میں کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک ہر موضوع پر بات کی جاتی تھی۔ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا اور نثر میں‌ بھی اظہارِ خیال کرنے لگے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ شاید کے عنوان سے شایع ہوا جس کا پیش لفظ اس قدر مقبول ہوا کہ ان کے مداح آج بھی اسے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ جون ایلیا رومان پرور انسان تھے اور ان کی خیالی محبوباؤں سے الفت اور کلفت کا سلسلہ سخن میں‌‌ ڈھلتا رہا۔ جون ایلیا اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں قلم طراز ہیں: "میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا:
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

معروف کالم نگار اور مصنفہ زاہدہ حنا ان کی شریکِ سفر رہیں۔ ان کی تین اولادیں ہیں جن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ اس جوڑے کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی۔ جون ایلیا کے شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے جون ایلیا کو سنہ 2000ء میں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ جون ایلیا کی شاعری ان کے لہجے کی بیباکی، اشعار میں برجستگی اور خاص طور پر شاعری میں محبوب سے اُن کی بے تکلفی نے انھیں نئی نسل کا مقبول ترین شاعر بنا دیا۔ سوشل میڈیا کے دور میں آنکھ کھولنے والے نوجوانوں‌ کی بڑی تعداد ان کی مداح ہے اور جون ایلیا کو سننا اور پڑھنا پسند کرتی ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں