جھنڈے خان برصغیر کے استاد موسیقار تھے جن کی خوب صورت بندشیں اور مدھر دھنیں ان کی لازوال فنی اختراع ہیں۔ انھوں نے تھیٹر اور اسٹیج ڈراموں کے عروج کے زمانے میں بڑا نام پایا جب شائقین کی پسندیدگی کے پیشِ نظر ڈراموں میں کلاسیکی موسیقی اور گانے زیادہ سے زیادہ شامل کیے جاتے تھے۔ موسیقار جھنڈے خان 1952ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔
جھنڈے خان کا اصل نام میاں غلام مصطفٰی تھا۔ وہ 1866ء میں جمّوں کے ایک گاؤں کوٹلی اوکھلاں میں پیدا ہوئے تھے۔ موسیقی کا شوق ایسا تھا کہ اس فن کو باقاعدہ سیکھنے کی خاطر انھوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا۔ بعد میں بمبئی سکونت اختیار کی جہاں اس زمانے میں موسیقی کے بھنڈی بازار گھرانے کے باکمال فن کاروں چھجو خان، نذیر خان اور خادم حسین خان کی صحبت میں رہے اور ان سے اکتساب کیا۔ وہ ہندوستان کی مشہور تھیٹریکل کمپنیوں سے وابستہ رہے اور ان کے لیے شان دار دھنیں ترتیب دیں اور موسیقی کی دنیا میں اپنے فن کی بدولت بڑا نام پایا۔ بعد میں ناطق فلموں کا سلسلہ شروع ہوا تو تھیٹر کی رونقیں ماند پڑنے لگیں، تب استاد جھنڈے خان کو 30 سے زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب دینے کا موقع ملا۔ ’’چتر لیکھا‘‘ وہ فلم تھی جسے استاد جھنڈے خان کی فنی عظمت کی یادگار کہا جاتا ہے جس میں انھوں نے تمام دھنیں ایک ہی راگ (بھیرویں) میں ترتیب دی تھیں۔ ماہر موسیقار ان کے فن و اختراع کے معترف ہوگئے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ سُر ایک ہی تھے لیکن ان کا زیر و بم اپنے تنوع کے باعث یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیتا تھا کہ کوئی ایک ہی راگ سماعت کر رہا ہے۔
تقسیمِ ہند کے بعد اس عظیم موسیقار نے پاکستان کے شہر گوجرانوالہ ہجرت کی اور یہیں وفات پائی۔ استاد جھنڈے خان کو رجحان ساز اور اختراع کار کہا جاتا ہے۔ وہ منکسر المزاج، سیدھے سادے انسان تھے جن کا اوڑھنا بچھونا موسیقی تھی۔ انھیں موسیقی سے لگاؤ اور اس فن میں مہارت یوں حاصل ہوئی کہ فقیر منش جھنڈے خان اکثر درگاہوں اور مزاروں پر قوالیاں سننے جاتے تھے۔ یہی شوق انھیں موسیقی سیکھنے کی طرف لے آیا۔ مزارات اور درگاہوں پر وقت گزارتے ہوئے جھنڈے خان کچھ گانے بجانے کی مشق کرچکے تھے اور پھر اس فن کی باریکیوں کو سمجھنے اور باقاعدہ موسیقی سیکھنے کا ارادہ کر کے جموں سے لاہور پہنچے جہاں ایک پارسی تھیٹریکل کمپنی کا تماشہ دیکھنے کا موقع مل گیا۔ انھیں تھیٹر اور ڈراموں میں دل چسپی پیدا ہو گئی۔ سید میر قدرت علی حیدر آبادی اس کمپنی کے موسیقی نواز تھے۔ کسی طرح جھنڈے خان ان تک پہنچ گئے اور ان کے شاگرد بن کر ہارمونیم بجانا سیکھ لیا۔ اس طرح ایک کمپنی میں انھیں باجا ماسٹر کے طور پر رکھ لیا گیا۔ جھنڈے خان نے اس ساز پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد بمبئی کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں موسیقی کے بھنڈی بازار گھرانے کے موسیقاروں چھجو خاں، استاد نظیر خاں مراد آبادی اور خادم حسین خاں سے اکتساب کیا۔ موسیقی میں مہارت ہی مختلف تھیٹریکل کمپنیوں سے ان کی وابستگی اور شہرت کی وجہ بنی تھی جس میں اپنی صلاحیت اور لگن سے جھنڈے خان نے ایسی اختراع کیں کہ شائقین میں ان کی بندشیں اور دھنیں بہت مقبول ہوئیں۔ جھنڈے خان کی خوبی یہ رہی کہ انھوں نے اپنے گانوں کے لیے معروف راگ راگنیاں منتخب کیے اور اس وقت کی روایت کے مطابق اندر سبھا یا دوسرے ڈراموں کی طرح پیچیدہ اور مشکل راگ پسند نہیں کیے۔ تالوں میں بھی عام فہم تالیں ان کو قابل فن کار ثابت کرتی ہیں۔
استاد جھنڈے خاں نے فلموں کی موسیقی ترتیب دی تو پہلے پہل 1931ء میں دیوی دیویانی، 1932ء میں رادھا رانی، 1934 میں ویر ببرووھان، 1936ء میں پربھو کا پیار، 1943ء میں شہنشاہ اکبر جیسی فلموں کے ذریعے فلم سازوں کی توجہ حاصل کی اور شائقین سے بھی داد بٹوری۔ لیکن 1941ء میں استاد جھنڈے خاں کا بے نظیر فنی کرشمہ معروف ہدایت کار کیدار شرما کی فلم”چتر لیکھا“ تھی جس کا تذکرہ اوپر آیا ہے۔
اردو زبان کے صاحبِ اسلوب ادیب اور موسیقار شاہد احمد دہلوی تھیٹر کے زمانۂ عروج کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ”آغا حشر نظم و نثر دونوں پر پوری قدرت رکھتے تھے۔ انھوں نے جہاں دوسرے موسیقاروں سے اپنے ڈراموں کے گانوں کی دھنیں اپنی نگرانی میں بنوائیں وہاں ایک بے مثل نغمہ کار و نغمہ ساز استاد جھنڈے خاں کو بھی انھوں نے ہی تلاش کیا۔ استاد جھنڈے خاں تھیٹر کی موسیقی میں غیر فانی یادگاریں چھوڑ گئے۔“