کراچی: شہر قائد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ملازمین کے درمیان انتظامی امور پر تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے۔
جناح اسپتال کراچی کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر شاہد رسول نے اپنی ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کے خلاف عدالتی فیصلے پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ابھی تک معطلی کا سرکاری لیٹر موصول نہیں ہوا، لیکن میں اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
پروفیسر شاہد رسول نے کہا کہ انھوں نے 2021 سے 2024 تک جناح اسپتال میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر کئی اہم اقدامات کیے، جن میں ویسکیولر سرجری کا شعبہ قائم کرنا شامل ہے۔ انھوں نے کہا ’’میرے خلاف عدالت جانے والے ڈاکٹروں کو میں نے خود ترقیاں دلوائیں، میں نے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی فیکلٹی کی مدد سے اسپتال کی بہتری کی کوشش کی۔‘‘
انھوں نے نیوروسرجری ڈیپارٹمنٹ میں اموات کے زیادہ تناسب پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیورو سرجری میں جنوری سے جون 2024 تک 523 اموات ہوئیں۔ انھوں نے کہا ’’میں مریضوں کی بہتری کے لیے جلد آپریشن کا کہتا ہوں تو میری بات نظر انداز کر دی جاتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر شاہد رسول نے سوال اٹھایا کہ اگر میری تعیناتی غیر قانونی ہے تو کیا 2021 سے ہونے والی تمام بھرتیاں بھی غیر قانونی قرار دی جائیں گی؟ پروفیسر شاہد رسول نے وفاقی ایچ او ڈیز کی مداخلت کو اسپتال کے نظام کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسپتال کو 8 افراد نے یرغمال بنا رکھا ہے۔
واضح رہے کہ عدالت نے پروفیسر شاہد رسول کی تعیناتی کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے، لیکن انھوں نے فیصلے کو چیلنج نہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ احتجاج ان کا حق ہے مگر اس سے مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔
دریں اثنا، کراچی کے جناح اسپتال میں ڈاکٹر تنظیموں نے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پروفیسر شاہد رسول کی ڈیپوٹیشن پر تقرری کی معطلی کے خلاف مظاہرہ کیا، ہاتھوں میں بینرز تھامے مظاہرین نے نعرے بازی کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر شاہد رسول نے اسپتال کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے، ان کی تعیناتی پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
ڈاکٹروں نے او پی ڈیز کا بائیکاٹ کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت سے اسپتال کے حوالے سے پالیسی کو ہم آہنگ کرنے کا مطالبہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ کہ جناح اسپتال ایک معاہدے کے تحت صوبائی انتظام کا حصہ بنا، لیکن یہاں درجنوں پوسٹیں خالی ہیں، اور کچھ عناصر ذاتی مفاد کی خاطر اسپتال کا نظام درہم برہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔