واشنگٹن: صدر جو بائیڈن کو الیکشن کی دوڑ سے باہر ہونا چاہیے یا نہیں، ڈیموکریٹس اس معاملے پر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے قانون سازوں نے گزشتہ روز امریکی صدر جو بائیڈن کے انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے کے فیصلے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے نجی طور پر ایک ملاقات کی۔
صدر جو بائیڈن خود کو تواتر کے ساتھ صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا واحد مقابل قرار دیتے آ رہے ہیں، لیکن ان کی جسمانی اور ذہنی تندرستی کے بارے میں بھی سوالات مستقل طور پر گردش میں ہیں۔
منگل کے روز بند کمرے کی بات چیت میں ڈیموکریٹس نمائندگان کی رائے تقسیم ہوتی نظر آئی، واشنگٹن میں کئی گھنٹے کی ملاقات کے بعد بھی ڈیموکریٹس کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ سینیٹر چک شومر نے بائیڈن کی حمایت کی تو نیو جرسی سے ڈیموکریٹ رکن مکی شیریل نے بائیڈن کو دست برداری کا مشورہ دے دیا۔
کیا جو بائیڈن کو پارکنسن کی بیماری ہے؟ وائٹ ہاؤس ترجمان کا بیان جاری
اب تک 7 ڈیموکریٹس امیدوار صدر بائیڈن سے دست برادری کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ کچھ ہائی پروفائل ڈیموکریٹس 59 سالہ نائب صدر کملا ہیرس کے حق میں بات کرنے لگے ہیں کہ وہ بائیڈن کی جگہ ایک فطری امیدوار ہیں، اتوار کو کیلیفورنیا کے کانگریس مین ایڈم شِف نے این بی سی کے میٹ دی پریس کو بتایا کہ یا تو جو بائیڈن کو زبردست طور سے جیتنے کے قابل ہونا پڑے گا، یا پھر انھیں مشعل کسی ایسے شخص کو سونپنا ہوگا جو یہ کر سکتا ہو، کملا ہیرس ٹرمپ کے خلاف ’’بہت اچھی طرح سے جیت سکتی ہیں۔‘‘
دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹس فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے کہ کون صدارت کے لیے فٹ ہے، میامی میں ریلی سے خطاب میں انھوں نے کہا مجھے لگتا ہے میں نے صدارتی مباحثے میں بائیڈن کو بدترین شکست دی ہے۔ واضح رہے کہ بائیڈن کی مباحثے میں کارکردگی کے بعد ہی ڈیموکریٹس نے ان سے دست برداری کا مطالبہ کیا ہے۔