امریکہ کے صفِ اوّل کے ناول نگار جان اپڈائیک کو بطور ادیب، شاعر اور ادبی ناقد عالمی سطح پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے ایک ایسے شخص کی زندگی پر بھی ناول لکھا تھا جس کا مسلمان باپ اپنی امریکی شہریت رکھنے والی بیوی کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جان اپڈائیک نے نیوجرسی کے پس منظر میں مذہبی انتہا پسندی کو بھی اپنے ایک ناول کا موضوع بنایا تھا۔
ہم جان اپڈائیک کا تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے یہاں کر رہے ہیں۔ اپڈائیک کے بچپن سے آغاز کرتے ہیں جس کے بارے میں انھوں نے اپنے تحریر کردہ مضامین میں لکھا اور بعض انٹرویوز میں بتایا۔ ان کے والد اسکول ٹیچر اور والدہ ادیب تھیں۔ ان کے گھر میں رائٹنگ ٹیبل پر ایک ٹائپ رائٹر دھرا تھا اور اپڈائیک کے مطابق یہ مشین انھیں اپنی جانب کھینچتی تھی۔ وہ شروع ہی سے قلم اور کورے کاغذ کو پسند کرتے تھے اور ساتھ میں ڈاک کے ان خاکی لفافوں کا بھید جاننے کے لیے بے چین ہوجاتا تھا، جو ان کے گھر کے پتے پر موصول ہوتے۔ دنیا جہان کے موضوعات پر کتابیں بھی ان کے گھر میں موجود تھیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ والدہ کی زبانی اکثر علمی و ادبی موضوع پر گفتگو اور مباحث بھی بڑے شوق سے سنتے تھے۔ اسی ماحول کے زیرِ اثر جان اپڈائیک نے کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا تھا۔
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بچّوں کا ادب پڑھنے کے قابل ہوگئے تو دل چسپ کہانیاں اور مہم جوئی پر مبنی قصّے ان کے مطالعے میں آئے۔ ان کے تخیل نے اڑان بھری اور الفاظ سے نفسِ مضمون پیدا کرنے کے قابل ہوئے تو سب سے پہلے اپنے جذبات اور احساسات کو نظم کیا۔ اس کے بعد نوعمر اپڈائیک نے ایک مختصر مضمون بھی لکھ ڈالا۔ والدین نے ان کی تخلیقی کاوشیں دیکھیں تو خوشی کا اظہار کیا اور بیٹے کی حوصلہ افزائی کی۔ بعد کے برسوں میں والدہ کی راہ نمائی میں جان اپڈائیک نے باقاعدہ اپنا تخلیقی سفر شروع کیا اور پھر وہ امریکہ اور دنیا میں اپنے نظریۂ ادب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے پہچانے گئے۔
جان اپڈائیک اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ان کا بچپن عام بچّوں سے کچھ مختلف تھا۔ اپڈائیک روانی سے نہیں بول سکتے تھے اور ایک ایسے مرض میں بھی مبتلا تھے جس میں جلد کی رنگت سفید ہوجاتی ہے اور چہرے پر سرخ نشانات پڑجاتے ہیں، لیکن والدین کی بھرپور توجہ اور پیار و محبّت نے ان کو کسی بھی قسم کے احساسِ کم تری سے دوچار نہیں ہونے دیا۔ اپڈائیک نے بڑے اعتماد سے اپنا قلمی سفر شروع کیا۔ وہ اس بارے میں لکھتے ہیں۔
’’میں نے اپنی ماں کو ہمیشہ رائٹنگ ٹیبل پر لکھنے پڑھنے میں مشغول پایا۔ شعور کی سرحدوں کو چُھوا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک رائٹر کے طور پر شناخت کی جاتی ہیں۔ انہوں نے میرے اندر لکھنے کا شوق پیدا کیا اور ہر قدم پر میری راہ نمائی کی۔ میرا تخلیقی سفر انہی دنوں کی اُس حوصلہ افزائی اور مدد کا نتیجہ ہے۔‘‘
18 مارچ 1932ء کو امریکہ میں آنکھ کھولنے والے جان اپڈائیک نے اوّلین تخلیقات کے بعد جب باقاعدہ قلم تھاما تو پہلے اپنے رہائشی علاقے ریڈنگ کے طرزِ زندگی پر ناول لکھا۔ اپڈائیک کی تخلیقات اپنے متنوع موضوعات اور منفرد اسلوبِ نگارش کی بدولت قارئین میں مقبول ہوئیں۔ ان کے عام موضوعات سماجی اقدار اور امریکی شہری تھے جب کہ شارٹ اسٹوریز اور ناولوں میں انہوں نے خاص طور پر مڈل کلاس طبقے کے مسائل کو اجاگر کیا۔
عظیم ناول نگار، شاعر اور نقّاد جان اپڈائیک کا ایک مضبوط حوالہ ان کی حقیقت پسندی ہے۔ ان کی تحریروں میں انسانی رویّوں اور الجھنوں کے ساتھ سماجی سطح پر شکست و ریخت کی عکاسی کی گئی ہے۔ اپڈائیک کی تخلیقی انفرادیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ان قدروں اور روایات کی پابندی نہیں کی جو حقائق سے چشم پوشی پر اکساتی ہیں اور کسی بھی معاشرے کو تنگ نظری کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔ خاص طور پر اخباری مضامین ان کی قوتِ مشاہدہ اور تجزیاتی فکر کی عمدہ مثال ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے معاشرے اور عام لوگوں کی ترجمانی کرتے رہے۔ رواں اور سادہ طرزِ تحریر کے باعث نقاد اور اپڈائیک کے ہم عصر بھی ان کے معترف نظر آئے۔ ناقدین کے مطابق اپڈائیک نے انگریزی ادب میں روایت اور نام نہاد اصولوں کی پاس داری کرنے کے بجائے متحرک زندگی کا ساتھ دیا اور اسی خوبی کی بنیاد پر صفِ اوّل کے تخلیق کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
دورانِ تعلیم جان اپڈائیک ایک مقامی روزنامہ ’’ریڈنگ ایگل‘‘ سے بہ طور کاپی بوائے منسلک ہوگئے۔ یہ ملازمت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوئی اور اس عرصے میں ان کا ادبی ذوق اور رجحان خوب پروان چڑھا۔ 1950ء میں اپڈائیک نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور انگریزی ادب میں گریجویشن کیا۔ فائن آرٹس میں گہری دل چسپی کے باعث انھوں نے اسکیچ اور کارٹون بنانے کا فن سیکھ لیا تھا۔ اپڈائیک کی حسِ مزاح بھی تیز تھی۔ وہ اپنے فن اور اِسی مہارت کو کام میں لائے اور معاشرتی مسائل اور خامیوں کو طنز و مزاح کے رنگ میں پیش کیا۔ مقامی اخبارات میں ان کے کارٹون شایع ہوئے جو بہت پسند کیے گئے۔ فائن آرٹ میں یہی دل چسپی انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی لے گئی جہاں اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں شارٹ اسٹوریز، اخباری مضامین اور شاعری کا سلسلہ جاری رہا اور ایک قلم کار کی حیثیت سے ان کی پہچان کا سفر شروع ہوگیا۔
انگلینڈ میں حصولِ تعلیم کے دوران اُن کی ملاقات امریکی قلم کاروں ای بی وہائٹ اور کیتھرائن وہائٹ سے ہوئی جنہوں نے اپڈائیک کی تخلیقات کی ستائش کے بعد ’’نیویارکر‘‘ کے لیے لکھنے کی دعوت دی۔ چند ماہ بعد اپڈائیک امریکا لوٹے اور نیویارکر کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اس معروف جریدے میں 1954ء میں پہلی بار ان کی ایک اسٹوری چھپی اور پھر یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔ اب اپڈائیک کا فن اور ان کا اسلوب بھی اس دور کی ادبی بیٹھکوں میں زیرِ بحث آنے لگا تھا۔ مطالعہ اپڈائیک کے ذہن کو اجالتا اور فکر لکھنے پر آمادہ کرتی رہی۔ شاعر اور کہانی کار کے بعد وہ ایک نقاد کی حیثیت سے بھی سامنے آئے۔ یہ کمال اور ہمہ جہتی ان کے وسیع مطالعے اور تجزیاتی فکر کا نتیجہ تھی۔
جان اپڈائیک کی شارٹ اسٹوریز اور ناولوں کا چرچا امریکا اور بیرونِ ملک بھی ہونے لگا تھا۔ قارئین کے ساتھ انگریزی ادب کے ناقدین بھی ان کے کمالِ فن کا اعتراف کر چکے تھے۔ اپڈائیک گویا مقبولیت کے ہفت خواں طے کر رہے تھے، لیکن قارئین کے ذہنوں کے پردے پر ان کے محبوب مصنف کا ابھرنے والا خاکہ ابھی بے رنگ تھا۔ وہ اپڈائیک کے حالاتِ زندگی اور نظریات کی بابت کم جانتے تھے۔ اپڈائیک نے 1989ء میں اپنی خود نوشت لکھ کر اس خاکے میں رنگ بھر دیے۔ کہا گیا کہ ان کی اس تصنیف کا طرزِ تحریر ایسا تھا کہ قاری ختم کیے بغیر کتاب چھوڑنا نہ چاہے۔ یوں واقعات کے تسلسل، روانی اور زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ذات آشنائی کا مرحلہ بھی مکمل ہوا۔
جان اپڈائیک نے اپنے گردوپیش کے مسائل اور واقعات کو اپنے الفاظ اور اسلوب کا پیراہن عطا کیا اور ان پر کہانیاں بُنیں۔ ان کی تخلیقات متوسط طبقے اور اس کی مجبوریوں پر مصنف کی گرفت اور گہرے مشاہدے کی بہترین مثال ہیں۔
اپڈائیک مصلحت پسند نہیں رہے اور ہمیشہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے امریکا کے مضافات کی زندگی کے ایسے پہلوؤں پر بات کی جنہیں اُس دور میں ناگفتہ سمجھا جاتا تھا، لیکن انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان کے ناولوں کا موضوع اخلاقی پستی، اقدار کی پامالی اور معاشرتی پیچیدگیوں کے علاوہ جنسی رویّے بھی رہے۔ اس کی ایک مثال ناول Couples ہے جو 1968ء میں منظر عام پر آیا۔ اس ناول کا موضوع بوسٹن اور نواح کی زندگی تھی۔ یہ بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ اسی ناول کے بعد وہ مشہورِ زمانہ امریکی جریدے ’’ٹائم میگزین‘‘ کی کور اسٹوری بنے۔ بعض حلقوں کی جانب سے ان پر نسل پرستی اور زن بیزاری کی تہمت بھی دھری گئی۔ اپڈائیک نے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔ وہ اپنے نظریۂ ادب اور فلسفے پر ڈٹے رہے۔ ان کا ناول Bech is Back منظرِ عام پر آیا تو ٹائم میگزین نے ایک بار پھر اس پر اسٹوری شایع کی۔ یہ 1983ء کی بات ہے۔
اپڈائیک کا پہلا ناول Poorhouse Fair تھا اور 1958ء میں نظموں کا پہلا مجموعہ The Carpentered Hen کے نام سے شایع ہوا۔ اس عرصے میں ان کی شارٹ اسٹوریز نیویارکر کا حصّہ بنتی رہیں جو انگریزی ادب کا شاہ کار تسلیم کی جاتی ہیں۔ انھوں نے بعد میں کئی ناول لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں امریکا اور عالمی سطح پر کئی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
جان اپڈائیک اپنے آخری ناول کی اشاعت کے ایک برس بعد 27 جنوری 2009ء کو انتقال کرگئے۔ وہ پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے۔
(اردو ترجمہ: عارف عزیز)