اردو زبان کا کوئی بڑا شاعر ایسا نہیں جو جوشؔ ملیح آبادی سے متاثر نہ ہو۔ اپنے تخلیقی جوہر اور معنویت کے اعتبار سے جوشؔ صاحب کا کلام اردو شاعری کی تاریخ میں درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس قادرالکلام شاعر کے رفقا اور دیگر ملاقاتی بھی شاعری کے علاوہ مختلف موضوعات پر جوش صاحب سے گفتگو کرکے خوشی محسوس کرتے تھے۔ اسی طرح ہم عصروں اور رفتگاں کے کلام پر بھی ان کی رائے کو بہت اہم سمجھا جاتا تھا۔
معروف ادیب، مورخ، محقق اور انشا پرداز اعجاز الحق قدوسی نے بھی جوش صاحب سے ایک سوال کیا تھا جس کی تفصیل انھوں نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں یوں بیان کی ہے۔
جوش ملیح آبادی کی قوتِ مشاہدہ نہایت وسیع اور ہمہ گیر تھی۔
ایک دن میں نے ان کی قوتِ مشاہدہ کی تعریف کی تو کہنے لگے۔
قدوسی، شاید تمھیں یقین نہ آئے، مگر حقیقت یہ ہے کہ راہ میں ذرّات تک مجھے آواز دیتے ہیں کہ خدا کے لیے مجھے نظم کر جائیے۔
ایک دن میں نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک اردو کا سب سے بڑا شاعر کون ہے۔ ذرا اس کی وضاحت کیجیے۔ وہ بولے۔
نظیر اکبر آبادی کہ اس کی شاعری عوام کی ترجمان ہے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے۔ اب دیکھیے وہ انسانیت کی حقیقت کو کس طرح اور کس دل کش انداز میں بیان کرتا ہے۔
اور سب میں جو برا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
پھر کہنے لگے۔ فارسی شاعری میں حافظ اور نظیری بھی اپنا جواب نہیں رکھتے۔