تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

صحافت کے گلشن میں فیض کا سوز اور لحن

کسی بھی جمہوریت اور آزاد معاشرے میں ذرایع ابلاغ بالخصوص اخبارات اور رسائل میں خبر کا معروضی انداز، کسی بھی واقعے اور مسئلے پر رپورٹ میں غیر جانب داری بنیادی صحافتی اصول ہیں اور اسی طرح اداریہ نویسی بھی حق بات کو جرأت کے ساتھ بیان کرنے کا نام ہے۔

کوئی بھی مدیر جس فیصلے، پالیسی یا کام کو غلط سمجھتا ہے اس پر اپنے روزنامہ کے اداریے میں عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر پیش کرتا ہے اور اس طرح معاشرے کی بہتری کے لیے حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اداریہ نویسی اردو اور انگریزی اخبار کی ایک نہایت سنجیدہ، مضبوط اور مستحکم روایت ہے۔ اداریہ ایسی تحریر ہوتی ہے جو عموماً مستند صحافی اور تجربہ کار مدیر یا ناشر کے قلم سے نکلتی ہے۔ اداریہ نویس اگر تخلیقی ذہانت رکھتا ہے اور حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ وسیع مطالعہ کا حامل ہو تو اہم، نہایت سنجیدہ اور حساس معاملات پر اپنا اداریہ نہایت خوب صورت اور دل نشیں پیرائے میں رقم کرتا ہے تاکہ وہ لائقِ توجہ بنے اور ہر قاری کو یکساں طور پر متاثر کرے۔

فیض احمد فیضؔ ہماری فکری، ادبی اور صحافتی روایت کا روشن استعارہ ہیں۔ وہ دانش وَر تھے، استاد تھے، انقلابی فکر کے پرچارک، مزدور راہ نما اور عہد ساز شاعر بھی، لیکن وہ ایک مدیر اور صحافی کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔ انھوں نے اردو اور انگریزی صحافت کے گلشن میں اپنی فکر کے پھول کھلائے اور اس کا رنگِ بیاں خوب نکھارا۔ وہ ادب اور صحافت دونوں ہی میں ترجمانِ حیات رہے اور سب کی نظروں میں احترام اور اعتبار پاپا۔

سید سبط حسن جو دنیائے صحافت میں ان کے رفیقِ خاص رہے وہ ’سخن در سخن‘ میں فیض صاحب کی صحافتی خدمات پر یوں رقم طراز ہیں:

”فیض صاحب نے دس گیارہ سال اخبار نویسی کی۔ پاکستان کی صحافت کی تاریخ میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے اخبار نویسی بڑے آن بان سے کی۔ انہوں نے ضمیر کے خلاف کبھی ایک حرف بھی نہ لکھا۔ بلکہ امن، آزادی اور جمہوریت کی ہمیشہ حمایت کی۔ اقتدار کی جانب سے شہری آزادیوں پر جب کبھی حملہ ہوا تو فیض صاحب نے بے دھڑک اس کی مذمت کی اور جس حلقے، گروہ، جماعت یا فرد سے بے انصافی کی گئی انہوں نے اس کی وکالت کی۔ فیض صاحب کے اداریے اپنی حق گوئی کی ہی بدولت مقبول نہ تھے بلکہ وہ نہایت دل چسپ ادبی شہ پارے بھی ہوتے تھے جن کو دوست اور دشمن سب لطف لے کر پڑھتے تھے۔“

فیض نے اداریہ نویسی میں نئی طرز ایجاد کی جس کے بارے میں ڈاکٹر آفتاب احمد نے ’بیادِ صحبتِ نازک خیالاں‘ میں لکھا:

’فیض صاحب نے اپنی صحافتی زندگی کی ابتدا میں واقعی بڑی محنت کی تھی۔ انہوں نے پاکستان ٹائمز میں اداریہ نویسی کا ایک نیا ڈھنگ نکالا اور اس کو ایک ادبی ذائقہ بھی دیا۔ ان کے اس زمانے کے اداریوں میں دو تین آج بھی میری یاد میں محفوظ ہیں۔ ایک تو شاید 1951 کے اوائل میں جب لیاقت علی خان نے کامن ویلتھ کے وزرائے اعظم کی کانفرنس میں شرکت کے لیے اس بنا پر پس و پیش کی کہ اس میں کشمیر کا مسئلہ بھی زیرِ بحث لایا جائے اور پھر کسی واضح یقین دہانی کے بغیر ہی شرکت کے لیے روانہ ہوگئے تو فیض نے Westward Ho کے عنوان سے ایک اداریہ لکھا جو والٹر اسکاٹ کے ایک ناول کا نام ہے۔ یہ Charles Kingsley کا ناول ہے۔ وہاں کشمیر پہ کوئی خاص بات نہیں ہوئی اور لیاقت علی خان خالی ہاتھ واپس آئے تو فیض کے اداریے کا عنوان تھا The Return of the Native جو ٹامس ہارڈی کے ایک ناول کا نام ہے۔‘

ڈاکٹر آفتاب احمد نے مخزن کے مدیر، شیخ عبدالقادر کے انتقال پر اداریے کا بھی ذکر کیا ہے جو فیض نے ان کے بقول ’دل کی گہرائیوں میں ڈوب کر لکھا تھا۔‘
فیض نے ایک اداریے میں معاصر عالمی صورتِ حال پر لکھاری کے کردار پر بات کی تو ٹینی سن کی نظم Ring Out Wild Bells سے اس کا عنوان مستعار لیا:
Ring out the old

اسی نظم کی ان لائنوں پر اداریہ ختم ہوتا ہے:

Ring out the thousand wars of old
Ring in the thousand years of peace

Comments

- Advertisement -