منگل, مارچ 25, 2025
اشتہار

کچھوے کی عادت (ادبِ اطفال)

اشتہار

حیرت انگیز

ایک جنگل میں بہت سارے جانور آپس میں مل جل کر رہتے تھے۔ جنگل کا ماحول بہت خوش گوار تھا اور جانوروں میں باہمی اتفاق اور قربت ایسی تھی کہ کسی ایک پر کوئی مصیبت پڑتی تو سب اس کا ساتھ دینے جمع ہو جاتے۔ جنگل میں حشرات الارض کی بھی کمی نہ تھی اور وہاں کچھوے بھی پائے جاتے تھے۔ اسی جنگل میں ایک بچھو اور کچھوا گہرے دوست بن گئے تھے۔ کچھوے کو قدرت نے خوبی دی ہے کہ وہ پانی اور خشکی دونوں پر رہ سکتے ہیں، لہٰذا کچھوے کا جب تک دل چاہتا جنگل کی سیر کرتا رہتا اور پھر دریا میں اتر جاتا۔ بچھو اپنے دوست کچھوے کی اس زندگی پر رشک کرتا تھا۔

مزید سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں‌ پڑھنے کے لیے کلک کریں

اچھا، کچھوے اور بچھو‌ میں دوستی تو ہوگئی تھی، لیکن فطرت ان کی بہت الگ تھی۔ اکثر بڑے بزرگ کچھوے کو سمجھاتے تھے کہ دوستی اور میل جول برا نہیں اور جنگل کے سب جانور آخر کو آپس میں مل جل کر ہی رہتے ہیں، لیکن سب کی اپنی اپنی قوم اور نسل میں دوست بناتے ہیں۔ دوسرے جانوروں سے تعلق رکھنا الگ بات ہے مگر ان کے ساتھ دن رات گزارے نہیں جاسکتے۔ بزرگ کچھوے اس نوجوان کچھوے کو کہتے تھے کہ ہر جانور اپنی فطرت کے مطابق ہی عمل کرتا ہے۔ وہ اس سے باز نہیں‌ رہ سکتا۔ بچھو کی فطرت میں‌ ڈنک مارنا شامل ہے۔ اس سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ وہ برا نہیں مگر اپنی فطرت میں‌ ڈھلا ہوا ہے اور مجبور ہے۔ کچھوا اس بات کو سنی ان سنی کردیتا تھا۔

ادھر بچھو کو دریا بہت پسند تھا اور وہ اس کی سیر کرنے کی خواہش رکھتا تھا لیکن تیرنا نہیں جانتا تھا اور ڈوبنے کے خوف سے پانی میں نہیں اترتا تھا۔ ایک دن اس نے کچھوے سے کہا: یار! ہمیں بھی کسی دن دریا کی سیر کراؤ۔

کچھوے نے حیرانی سے کہا: “کیا تم تیرنا جانتے ہو؟“

بچھو نے جواب دیا: ”اگر تیرنا جانتا ہوتا تو تمھیں کیوں کہتا۔“

کچھوا بولا: ”پھر تم دریا کی سیر کیسے کر سکتے ہو۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ تم دریا کا نظارہ کنارے ہی سے کر لو۔“

بچھو نے کہا: ” میرے پاس ایک ترکیب ہے۔ کیوں نہ تم مجھے اپنی پیٹھ پر سوار کر لو اور اگر تم پانی کی سطح پر تیرتے رہو گے تو مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس طرح سے ہم دونوں ایک ساتھ دریا کی سیر کا لطف اٹھائیں گے۔

کچھوے نے بچھو کی بات سے اتفاق کیا۔ وہ دونوں دریا کے کنارے پر پہنچے۔ کچھوے نے بچھو کو اپنی پیٹھ پر سوار کیا اور پانی میں اتر گیا۔ بچھو دریا کی سیر سے بہت خوش تھا اور کچھوا اپنے دوست کی خوشی میں خوش تھا۔

دریا میں کچھ دور جانے کے بعد کچھوے نے اچانک اپنی پیٹھ پر کھٹ کھٹ کی آواز سنی۔ دراصل بچھو اپنے دوست کچھوے کی پیٹھ پر زور زور سے ڈنک مار رہا تھا۔ کچھوے نے جب دوبارہ وہی آواز سنی تو اس نے بچھو سے پوچھا: یہ آواز کیسی ہے؟ بچھو نے جواب دیا: “یار! تمھیں تو پتا ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کسی شے کو ڈنک مارنا میری عادت ہے۔ اس لیے تمھاری پیٹھ پر ڈنک مار رہا ہوں ۔ کچھوے نے اسے سمجھایا اور باز رہنے کے لیے کہا لیکن وہ اپنی حرکت سے باز نہ آیا۔

کچھوے کو اپنے بڑوں کی بات یاد آنے لگی۔ کئی بار سمجھانے کے بعد آخرکار تنگ آکر کچھوے نے پانی میں غوطے لگانا شروع کر دیے۔ بچھو جب ایک دو مرتبہ پانی میں‌ ڈوبا تو پریشان ہوگیا اور کچھوے سے کہا یہ تم کیا کر رہے ہو؟ اس طرح سے تو میں مر جاؤں گا ۔ کچھوے نے جواب دیا: “یار! تمھیں تو پتا ہے کہ پانی میں غو طے لگانا میری عادت ہے اور میں اپنی عادت سے باز نہیں رہ سکتا۔“ اگلے ہی لمحے بچھو پانی میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے دریا کی تہ میں جا پہنچا۔ اس طرح بچھو اور ان کی دونوں کی دوستی بھی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

(ادبِ اطفال سے انتخاب)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں