اشتہار

پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس مسرت ہلالی کون ہیں؟

اشتہار

حیرت انگیز

پشاور: جسٹس مسرت ہلالی نے پشاور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا، دو دن میں پشاور ہائیکورٹ کے دو چیف جسٹس کی عہدوں سے سبکدوشی کے بعد، جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی تاریخ میں پہلی خاتون قائمقام چیف جسٹس کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔

جوڈیشل کمیشن کی جانب سے جب تک پشاور ہائیکورٹ کے مستقل چیف جسٹس کی تقرری نہیں کی جاتی، تب تک جسٹس مسرت ہلالی قائمقام چیف جسٹس کے فرائض انجام دیں گی۔

جسٹس مسرت ہلالی 2013 کو پشاور ہائیکورٹ کی ایڈیشنل جج تعینات ہوئیں، پھر 2014 میں ہائیکورٹ کی مستقل جج بن گئیں۔ اس وقت جسٹس مسرت ہلالی پشاور ہائیکورٹ کی سینئر ترین جج ہیں، قائمقام چیف جسٹس روح الامین کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس مسرت ہلالی کو قائمقام چیف جسٹس ہائیکورٹ تعینات کیا گیا۔

- Advertisement -

جسٹس مسرت ہلالی

مسرت ہلالی 8 اگست 1961 کو پشاور میں پیدا ہوئیں، ان کا آبائی گاؤں ملاکنڈ ڈویژن میں ہے، انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خیبر لا کالج پشاور یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد انھوں نے وکالت کا شعبہ اختیار کیا اور 1983 میں ڈسٹرکٹ کورٹس کا لائسنس حاصل کر لیا۔ 1988 میں ہائیکورٹ اور پھر 2006 میں سپریم کورٹ کی وکالت کا لائسنس حاصل کیا۔

مختلف عہدوں پر تعیناتی

جسٹس مسرت ہلالی خیبر پختون خوا کی پہلی بار وکیل تھیں جو 2001 سے 2004 تک ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز رہیں۔ انوائرنمینٹل پروٹیکشن ٹربیونل کی پہلی خاتون چیئر پرسن اور پہلی صوبائی محتسب کا اعزاز بھی جسٹس مسرت ہلالی کو حاصل ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی وکالت کے ساتھ بار ایسوسی ایشن کی سیاست میں بھی سرگرم رہی ہیں، 1992 سے 1994 تک وہ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون نائب صدر کے عہدے پر تعینات رہیں۔ 1997 سے 1998 تک وہ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون جنرل سیکریٹری بھی رہی ہیں، اور 2007 سے 2009 تک سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون ایگزیکٹو ممبر بھی رہیں۔

وکلا تحریک کے دوران ٹانگ کی ہڈی ٹوٹی

2007 کی وکلا تحریک میں جسٹس مسرت ہلالی بھی دیگر وکلا کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہیں، وکلا احتجاج کے باعث پولیس وکلا کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی تھی، پولیس نے جسٹس مسرت ہلالی کے گھر پر بھی چھاپا مارا تو اس دوران ان کی ایک ٹانگ فریکچر ہو گئی تھی۔

وکلا کیا کہتے ہیں؟

پلوشہ رانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کی تاریخ کا انتہائی اہم دن ہے، ہائیکورٹ کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون جج نے آج قائمقام چیف جسٹس کا حلف اٹھایا ہے، وکالت کے شعبے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خواتین کو اتنے مواقع نہیں ملتے لیکن جسٹس مسرت ہلالی نے خود کو منوایا، امید ہے جوڈیشل کمیشن جلد ان کی مستقل چیف جسٹس تقرری کی منظوری بھی دے گا۔

پشاور ہائیکورٹ کی وکیل ندا خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی کا چیف جسٹس بننا پورے پاکستان کے لیے باعث فخر ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی جدوجہد کا نام ہے، یہ مقام انھوں نے اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کیا ہے۔ ندا خان نے بتایا کہ نوجوان خواتین وکلا کے لیے جسٹس مسرت ہلالی مشعل راہ ہیں۔

علی گوہر درانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی نہ صرف ایک وکیل بلکہ سماجی کارکن بھی رہی ہیں، اور بار ایسوسی ایشن کی سیاست میں بھی فعال کردار ادا کیا ہے۔ وکلا تحریک میں وہ صف اول میں کھڑی رہیں، ان کی قابلیت ہی تھی جس کی وجہ سے ان کو ہائیکورٹ جج تعینات کیا گیا، جسٹس مسرت ہلالی اپنے کورٹ روم کو بھی بڑے بیلنس انداز میں چلاتی رہی ہیں، جس کی وجہ سے تمام وکلا ان کی عدالت میں کیس آرگو کرنا پسند کرتے ہیں۔

جسٹس ہلالی نے پشاور ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھالیا

علی گوہر درانی نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی کی چیف جسٹس بننے سے خواتین نوجوان وکلا کو بہت حوصلہ ملا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین وکلا وکالت کا شعبہ اختیار کرتی ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد وہ غائب ہو جاتی ہیں، شائد خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ یہاں ان کے لیے مواقع کم ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے اور اس کی مثال جسٹس مسرت ہلالی ہیں۔

پشاور ہائیکورٹ کی وکیل نازش مظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ جج جج ہوتا ہے، چاہے وہ مرد ہو یا خاتون، جسٹس مسرت ہلالی بھی ہائیکورٹ کی ایک قابل جج ہیں اور اسی وجہ سے قائمقام چیف جسٹس تعینات ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ سب خواتین کے لیے فخریہ فخریہ ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے محنت کی اور آج پورے پاکستان کی خواتین کو ان پر ناز ہے۔

Comments

اہم ترین

مزید خبریں