معروف جرمن ادیب فرانز کافکا کو جیتے جی تو پذیرائی اور شہرت نہیں ملی مگر بعد از مرگ اسے بہترین کہانی کار اور شان دار تمثیل نگار کے طور پر یاد کیا گیا۔ یہ شہرت بھی اس لیے نصیب ہوئی کہ وہ شخص جسے کافکا نے وصیت کی تھی کہ وہ اس کی تخلیقات کو مرنے کے بعد نذرِ آتش کردے، ایسا نہیں کرسکا۔ یوں عالمی ادب میں کافکا کو پہچان ملی۔ کافکا کو پڑھنا سہل نہیں۔ اس کی گہری فکر اور حکایات ہم سے فہم اور بصیرت کا تقاضا کرتی ہیں۔
فرانز کافکا کی یہ حکایت ملاحظہ کیجیے:
’تاریک بھول بھلیوں میں دوڑتا ہوا ایک چوہا شکوہ کناں تھا کہ دنیا ہر گزرتے دن کے ساتھ تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ گزرے دنوں میں جدھر چاہتا تھا دوڑتا پھرتا تھا مگر اب دیواریں اس قدر سکڑ گئی ہیں کہ میں اپنے بل کے آخری حصّے تک آپہنچا ہوں۔ آگے چوہے دان لگا ہوا ہے، اس کے بعد میں کہاں جاؤں گا۔
چوہے کے عقب میں آنے والی بلّی نے کہا، تمہیں صرف راستہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ چوہے نے سمت تبدیل کی اور سیدھا بلّی کے منہ میں جا پہنچا۔