ایک مرتبہ وادیٔ بولان کے صحافیوں کی ایک جماعت سوئی گیس کے معائنے کے لیے گئی۔ ان میں یہ صحافی شامل تھے؛ خلیل الرحمان صدیقی، اعظم علی، معظم علی، مولانا عبداللہ بابائے صحافت محمد حسن نظامی، ریڈیو کے مسٹر انصاری اور انفارمیشن آفیسر سید اختر شاہ۔
ان دنوں سوئی تھانہ کے انچارج راجہ گلزار تھے۔ ان سے صحافیوں کا تعارف کراتے کراتے ریڈیو پاکستان کے نمائندے کی باری آئی تو تعارف کنندہ نے کہا۔ ”اور خدا آپ کا بھلا کرے۔۔۔۔ یہ ہیں پاکستان کے ایڈیٹر کا ریڈیو۔“ یہ سن کر تحصیل دار نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اچھا تو وہ آپ ہیں۔“ اس پر زور کا قہقہہ بلند ہوا۔
یہاں کے ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر کو اردو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا۔ اس لیے وہ اردو اخبارات سے نفرت کرتے تھے۔ وہ اکثر جناح روڈ پر بک اسٹال میں چلے جاتے اور وہاں انگریزی اخبارات پڑھتے۔ ایک دن وہ ایک اخبار لے کر دکان کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر اسے پڑھنے میں منہمک ہوگئے۔ ایک بجے کے قریب دکاندار دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے دکان بند کرکے تالا لگا کر گھر چلا گیا اور اخبار پڑھنے میں منہمک صحافی دکان میں بند ہوگئے۔ چار بجے بک اسٹال والے نے آکر دکان کھولی تو صحافی کو دکان کے اندر دیکھ کر حیران اور پریشان ہوا۔ مگر صحافی یہ کہتے ہوئے ”واہ صاحب کمال ہے“ دکان سے باہر نکل گئے۔
(کمال الدین احمد کی تصنیف ‘صحافت وادیٔ بولان میں’ سے اقتباس)