3 کروڑ سے زائد رہائشیوں کا جگمگاتا روشنیوں کا شہر کراچی اب ابلتے گٹروں، ڈوبتے گھروں، ٹوٹی سڑکوں اور اندھیروں کا مسکن بن چکا ہے۔
دنیا بھر میں شہر اور ملک وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کے مراحل طے کرتے ہیں، پاکستان کے دیگر شہر اس کی مثال ہیں، مگر شہر کراچی جو اپنے ابتدائی ایام ہی سے دنیا کے چند اچھے شہروں میں شمار ہوتا رہا تھا، اب بنیادی سہولیات سے محروم اور مسائلستان بنا ہوا ہے۔ اس شہر میں، جہاں 10 ہزار کلومیٹر سڑکیں ہیں، کوئی سڑک سلامت نہیں ملتی۔
شہر اپنی بے ہنگم ترقی کے بوجھ تلے دبے جا رہا ہے، جس ایک گھر میں 5 افراد رہتے تھے اب وہاں آسمان کو چھوتی عمارت میں 5 ہزار افراد رہتے ہیں، اور اب یہاں لاقانونیت کوئی جرم نہیں بلکہ اس شہر کا طرز عمل بن چکا ہے۔ یہاں ہزاروں لوگ روزانہ اپنے مال و متاع سے لے کر جان تک لٹیروں کے ہاتھوں گنوا دیتے ہیں۔
شہر میں ہزاروں ڈمپر جن پر ’دعوت تبلیغ زندہ باد‘ لکھا ہوتا ہے، بغیر کسی رجسٹریشن نمبر کے سڑکوں پر راہ گیروں اور موٹر سائیکل سواروں کو کچلتے ہوئے دندناتے پھرتے ہیں۔ ان ڈمپرز کو کبھی ٹریفک پولیس اہلکار نہیں روکتے، کیوں کہ صرف کار اور موٹر سائیکل والوں پر چالان اور بھتے کی صورت میں قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔
اس شہر میں صرف دو چیزوں کا راج ہے، طاقت سے مزین لاقانونیت اور رشوت کی چمک۔ شہر بھر میں صرف 40 فی صد قانونی گھر ہیں باقی سب معاملات ’’مایا‘‘ کا شکار ہیں۔ اسی لیے تو بابا بھلّے شاہ کئی سوسال پہلے کہہ گئے تھے کہ سب مایا ہے۔ شہر بھر کی فٹ پاتھوں پر دکان دار پچاس کرسیاں رکھ کر دیسی بن کباب اور چائے پراٹھا بیچتا ہے، جہاں قرب جوار کے رہائشیوں کے لیے رات گئے تک شور شرابا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔
جس شہر میں آج سے تیس سال پہلے تک 28 ہزار منی بسیں اور بسیں ہوتی تھیں، وہاں مسافر آج چنگچی رکشوں میں مرغا بننے پر مجبور ہیں۔ یہاں لاکھوں بغیر رجسٹریشن کے رکشے بھتا دے کر روڈ پر دس دس مسافروں کو منی بس کی طرح چلاتے ہیں۔ اس شہر میں سر شام ہر ٹھیلے والا روزانہ ایک طے شدہ رقم رشوت کی صورت میں دیتا ہے، جو قانونی طور پر سرکاری خزانے میں جمع ہو سکتی ہے مگر ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے!
یہ وہ شہر ہے جہاں سرکاری سرپرستی میں پارکنگ مافیا فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر غیر قانونی پارکنگ کرتا نظر آتا ہے، جہاں حیرت انگیز طور پر پارکنگ فیس نہ دینے پر پولیس وین آپ کی گاڑی اٹھا لے جاتی ہے۔
جو شہر 60 اور 70 کی دہائیوں میں روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، اب وہاں اندھیروں کے سائے ہیں۔ جہاں شہری آدھی رات کو شہر کی فٹ پاتھوں پر مٹر گشت یا چہل قدمی کرتے تھے، وہاں آج لوگ لٹنے اور جان سے مارے جانے کے خوف سے دن کی روشنی میں گھروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور جس شہر کی سڑکیں ماضی میں دھلتی تھیں اب وہاں رہائشی بوند بوند کو ترستے ہیں ۔۔۔۔ ایسا ہے میرا شہر!