قیامِ پاکستان کے وقت کراچی کے جنوب میں لیاری ندی کے کنارے، سمندر سے نزدیک ( اب سمندر دور چلا گیا ہے) بِہار سے ہجرت کرنے والوں کے لیے ایک کالونی آباد کی گئی جو بِہار کالونی کہلائی۔
یہاں کسی نے جھگی نہیں ڈالی، ایک کمرے یا دو کمرے کا مکان سہی سیمنٹ بلاک سے ہی تعمیر کیا، جس نے بھی اِس کالونی کا نقشہ بنایا، خوب بنایا۔
ندی کی طرف کسی مکان کا رخ نہیں تھا، گلیاں البتہ ندی کے رخ پر تھیں، ندی میں سیلاب آگیا۔ خوب بارش ہوئی، سمندر چڑھا ہوا تھا۔ ندی لبالب بَھر گئی اور پھر جب ندی کے اس طرف شیر شاہ کالونی کے مکانات زیرِ آب آنے لگے تو کسی نے سڑک کاٹ دی اور سارا سیلاب بہار کالونی میں داخل ہوگیا اور گلیوں سے ہوتا ہوا آگے نکل گیا۔ کسی مکان کو نقصان نہیں پہنچا، کوئی دیوار نہیں گری۔
یہاں آباد ہونے والے بزرگوں میں ممتاز عالمِ دین مولانا عبدالقدوس ہاشمی، روزنامہ ”منشور“ دہلی کے ایڈیٹر حسن ریاض، اسلامی اسکالر پروفیسر یحیٰی ندوی، تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے سید نجم الہدیٰ، میجر آفتاب حسن، سیّد محی الدین، سید تقی الدین۔ یہ حضرت حیدرآباد دکن میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ انھیں مشہور انگریز پائلٹ سڈنی کاٹن راتوں رات اُڑا کر کراچی لے آیا تھا۔
ریٹائرڈ کیپٹن طاہر حسین ملک جو ٹی۔ ایچ ملک کے نام سے مشہور تھے، پاکستان آکر وکالت کی تعلیم حاصل کی اور پریکٹس کرنے لگے۔ 25 دسمبر (سال یاد نہیں) کو قائدِاعظم کے مزار پر قرآن خوانی کرتے ہوئے دل بند ہوگیا اور وہیں جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
ڈاکٹر عقیل حسن، حکیم احسن ابراہیمی اور ایک ہومیو پیتھ ڈاکٹر جن کا نام بھول رہا ہوں انہوں نے بڑی خدمت کی کیوں کہ شروع میں ملیریا کا مرض عام تھا۔ زمین سیم زدہ تھی، بعد میں دو سیلابوں کی ’برکت‘ سے دو، دو فٹ مٹی نے آکر بہار کالونی کی تقدیر بدل دی۔
جوانوں میں بیشتر میٹرک پاس کرکے آئے تھے۔ ملازمت کی اور شبینہ کلاسوں میں پڑھتے ہوئے گریجویٹ بنے، ماسٹرز کیا، پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ اس طرح تقریباً سبھی خود پرداختہ و ساختہ(Self made) ہوئے۔ ان جوانوں میں ایک سید ابوظفر آزاد بھی تھے۔ علم اگر روشنی ہے اور جہالت اندھیرا تو یہ جوان آگے چل کر روشنی کا مینار نظر آیا۔ ایک آلِ حسن ملک ابراہیمی تھے جو انگریزی روزنامہ میں مراسلے لکھتے تھے۔
(کتاب بہار دانش سے اقتباس)